تیراہ وادی میں طالبان جنگجو دھماکے سے مارے گئے یا بمباری سے؟

خیبر پختون خواہ میں علی امین گنڈاپور حکومت سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے ان طالبان دہشت گردوں کا ساتھ دیتی نظر آتی ہے جن کے خلاف پاکستانی سیکیورٹی فورسز برسر پیکار ہیں۔
ایسے ہی ایک تازہ ترین واقعے میں علی امین گنڈاپور نے 22 ستمبر کو وادی تیرہ میں ایک بارودی دھماکے میں مارے جانے والے دو مطلوب ترین طالبان دہشت گردوں کے لواحقین کے لیے ایک ایک کروڑ روپے کی مالی امداد کا اعلان کیا ہے۔ ادھر عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ دو پاکستانی طالبان کمانڈرز عامن گل اور مسعود خان نے وادی تیرہ میں چار مکانوں پر مشتمل ایک کمپاؤنڈ میں پناہ گاہیں قائم کر رکھی تھیں، یہ کمپاونڈ سڑک کنارے نصب کیے جانے والے بارودی بم بنانے کی فیکٹری کے طور پر استعمال ہو رہا تھا۔ 22 ستمبر کی رات کمپاؤنڈ میں موجود بارودی مواد پھٹنے سے 24 افراد مارے گئے۔ اس دھماکے میں عامن گل اور مسعود خان کے علاوہ 13 دیگر طالبان بھی مارے گئے۔ دھماکے میں اپنی جانیں گنوانے والوں میں 10 عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔
عسکری ذرائع کا دعوی ہے کہ طالبان عسکریت پسند جان بوجھ کر اپنے خاندان کے افراد کیساتھ اس کمپاؤنڈ میں رہائش پذیر تھے تاکہ ان پر شک نہ کیا جا سکے۔ یہ کمپاونڈ 4 مکانوں پر مشتمل تھا جہاں پر بارودی سرنگیں تیار کی جاتی تھیں۔ تاہم تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے اراکین صوبائی اور قومی اسمبلی نے الزام عائد کیا ہے کہ 24 ہلاکتیں بارودی مواد پھٹنے سے نہیں بلکہ پاکستانی طیاروں کی بمباری سے ہوئی ہیں۔ ضلع خیبر کی وادی تیراہ میں ہونے وولی اموات کے بعد تحریک انصاف کے ورکرز نے باڑہ چوک میں دھرنا دے کر پاک افغان شاہراہ بند کر دی ہے۔
اس واقعے کے بعد وزیراعلی علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردوں کے خلاف کاروائیوں کے نتیجے میں عام شہریوں کی شہادت ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے تیراہ میں مرنے والوں کے لواحقین کو ایک ایک کروڑ روپے معاوضہ دینے اور یہ معاملہ عسکری حکام کے سامنے اٹھانے کا اعلان کیا۔ بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق خیبر پختونخوا میں 24 افراد کی اموات ہوئی ہیں جن کی وجہ ایک ادارے کے مطابق فضائی حملہ تھا جبکہ دوسرے ادارے کے مطابق بارودی مواد کا دھماکہ تھا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ فضائی بمباری سے خیبر پختونخوا کی وادی تیراہ میں 24 لوگ مارے گئے۔ یہ واقعہ ایسے علاقے میں ہوا ہے جہاں عسکریت پسندی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم حکومت یا سکیورٹی فورسز کی جانب سے اس بارے میں اب تک کوئی باقاعدہ بیان نہیں دیا گیا۔ تاہم یہ طے ہے کہ مارے جانے والے دونوں کمانڈرز کا تعلق تحریک طالبان سے تھا جو پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے خلاف برسر پیکار ہے۔
ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں نے حالیہ مہینوں میں خیبر پختونخوا کے ان پہاڑی علاقوں میں، جو افغانستان کی سرحد سے ملتے ہیں، سکیورٹی فورسز کے خلاف حملے تیز تر کر دیے ہیں۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی اقبال آفریدی کا تعلق وادہ تیراہ سے ہے جہاں 24 افراد مارے گئے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ پاکستانی سکیورٹی فورسز کے طیارے تھے جنہوں نے تیراہ میں واقعہ چار مکانوں پر بمباری کی اور 23 افراد کی جان لی۔ ادھر 23 ستمبر کو خیبر پختونخوا اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے صوبائی رکن اسمبلی سہیل خان آفریدی نے بھی ریاستی اداروں کو اس واقعے کا موردِ الزام ٹھہرایا۔
تیراہ کے قصبے میں تعینات ایک سینیئر پولیس افسر نے اے ایف پی کو بتایا کہ مرنے والوں میں چھ عورتیں اور چار بچے شامل تھے، تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ حملہ کس نے کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ’جیٹ طیاروں نے چار گھروں کو نشانہ بنایا، جو مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ ’تیراہ پاکستان۔افغانستان سرحد کے قریب واقع ہے اور یہاں ٹی ٹی پی کے ٹھکانے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں اس علاقے میں پالستانی سکیورٹی فورسز پر کئی حملے ہوئے ہیں جن میں درجنوں اہلکار شہید ہوئے۔ انہوں نے کہا یہ بھی سچ ہے کہ طالبان عسکریت پسند یہاں اپنے خاندانوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں تاکہ ان پر شک نہ کیا جائے۔
دوسری جانب امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق وادی تیراہ میں طالبان جنگجوؤں کے ایک کمپاؤنڈ میں بم بنانے کا سامان پھٹ گیا، جس سے 24 افراد کی اموات ہوئیں جبکہ مرنے والوں میں عسکریت پسند اور شہری دونوں شامل ہیں۔
یاد رہے کہ وادی تیراہ تقریباً 100 کلومیٹر پر محیط ایک خوبصورت وادی ہے۔ اسی لیے یہ ایک سیاحتی مقام بھی ہے تاہم افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد دیگر اضلاع کی طرح خیبر اور تیراہ میں بھی شدت پسندی نے دوبارہ سر اٹھایا ہے جس کی بڑی وجہ اس وادی کی افغانستان کے ساتھ متصل سرحد ہے۔ ماضی میں ضلع خیبر خاص طور پر وادی تیراہ میں لشکر اسلام نامی شدت پسند گروپ سرگرم رہا ہے جس کی سربراہی منگل باغ نامی کمانڈر کرتا تھا، جو 2021 میں افغانستان میں مارا گیا۔
