پاک افغان مذاکرات کی ناکامی کے بعد کیا ہونے جا رہا ہے؟

 

 

 

استنبول میں افغانستان اور پاکستان کے وفود کے مابین مذاکرات کا دوسرا دور مکمل طور پر ناکام ہو گیا ہے جس کی بنیادی وجہ افغان طالبان کی جانب سے پاکستان کو مطلوبہ تحریری یقین دہانیاں دینے سے انکار ہے۔ پاکستان نے مطالبہ کیا تھا کہ طالبان حکومت تحریری ضمانت دے کہ آئندہ تحریک طالبان کے دہشت گردوں کو افغان سرزمین پاکستان پر دہشت گرد حملے کرنے کے لیے استعمال نہیں کرنے دی جائے گی۔ تاہم افغان وفد نے فون پر کابل میں اعلی حکام کے ساتھ مشورے کے بعد ایسی کوئی یقین دہانی دینے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ پاکستان نے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کر دیا ہے۔

 

یاد رہے کہ خواجہ آصف نے چند روز پہلے یہ واضح کر دیا تھا کہ اگر پاک افغان مذاکرات ناکام ہوئے تو پھر پاکستان کسی بھی دہشتگرد حملے کی صورت میں افغانستان پر کھلا حملہ کرے گا۔  ادھر افغانستان کے سب سے بڑے نشریاتی ادارے طلوع نے یہ خبر دی ہے کہ استنبول مذاکرات کے دوران افغان وفد نے پاکستان پر واضح کیا کہ اگر اب افغانستان پر دوبارہ کوئی فضائی حملہ کیا گیا تو ردعمل میں اسلام آباد کو نشانہ بنایا جائے گا۔ سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ استنبول مذاکرات کے دوران افغان وفد نے پاکستانی موقف تسلیم کر لیا تھا لیکن تین بار عین آخری لمحات میں کابل کی مداخلت نے معاہدے پر دستخط نہیں ہونے دیئے۔ چنانچہ ترکیہ میں پاکستان اور افغانستان کے وفود کی سطح پر مذاکرات بغیر کسی حتمی نتیجے کے ختم ہو گئے۔

 

ذرائع کے مطابق مذاکرات میں افغان فریق نے واضح رکاوٹ اور عدم تعاون پر مبنی رویہ اپنایا۔ پاکستان میں حملوں کے لیے افغان سرزمین کا استعمال روکنے کے لیے عملی اور قابل تصدیق اقدامات پر اتفاق نہیں کیا جو اسلام آباد کا بنیادی مطالبہ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ افغان وفد کے کچھ ارکان کی طرف سے اشتعال انگیز گفتگو بھی ہوئی، اور انہوں نے کئی مواقع پر توہین آمیز اور حقارت آمیز زبان بھی استعمال کی۔ قطری اور ترک ثالث افغان وفد کے اس انداز گفتگو پر حیران ہوئے۔ انہوں نے بالواسطہ اس رویئے پر حیرت کا اظہار بھی کیا۔ مذاکرات کے ایجنڈے کے زیادہ تر نکات پر گہرائی میں تبادلہ خیال کیا گیا تھا، لیکن افغان سرزمین سے دراندازی کے بعد پاکستان میں دہشت گرد حملے روکنے کی یقین دہانی دینے سے انکار تعطل کا باعث بنا۔ افغان فریق نے کوئی ٹھوس یقین دہانی دینے کے بجائے حیلوں بہانوں سے کام لیا۔

 

ذرائع کے مطابق پاکستان نے طالبان عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں اور سرحد پار سے نقل و حرکت کے بارے میں ناقابل تردید شواہد پیش کیے۔ان شواہد پر توجہ دینے کے بجائے، کچھ افغان نمائندوں نے پیش کردہ مواد کے ماخذ پر سوال اٹھایا اور بات چیت کو تیکنیکی وسیاسی مسائل کی طرف موڑنے کی کوشش کی۔

مذاکرات کے دوران افغان وفد کی جانب سے بار بار کابل کے ساتھ رابطہ کیا جاتا رہا ،اس کے باعث بھی مذاکرات کو شدید نقصان پہنچا اور ٹھوس نتیجے پر پہنچنے میں ناکامی ہوئی۔جب افغان نمائندوں سے کہا گیو کہ وہ پاکستانی شہریوں اور سیکیورٹی فورسز کے خلاف حملے کرنے والے گروہوں کو روکنے اور اکھاڑ پھینکنے کے لیے اقدامات کریں تو افغان وفد نے ایسی یقین دہانی کرانے کی ذمہ داری لینے سے انکار کر دیا اور یہ دلیل دی کہ یہ لوگ افغان حکومت کے موثر کنٹرول میں نہیں۔ یہ ایسا موقف تھاجس نے ثالثوں کوبھی حیران کر دیا ۔

 

استنبول میں بات چیت کے دوران پاکستانی مذاکراتی وفد نے واضح کیا کہ اگر پاکستانی طالبان افغان سرزمین سے پاکستان کے اندر حملے جاری رکھتے ہیں تو اسلام آباد اپنے عوام اور خودمختاری کا دفاع کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کا حق محفوظ رکھے گا۔ یہ انتباہ سرحد پار سے بار بار حملوں کے لیے ایک سنجیدہ، متناسب ردعمل کے طور پر دیا گیا تھا۔ مذاکرات کے دوران افغان وفد نے باہمی گارنٹیوں کی تجویز پیش کی، جس کے مطابق افغانستان کی یقین دہانیوں کے بدلے، پاکستان کو افغان فضائی حدود کی خلاف ورزی نہ کرنے اور افغانستان میں حملوں کے لیے پاکستانی فضائی حدود کے کسی تیسرے فریق کے استعمال پر پابندی کی ضمانت دینی چاہیے۔ اس پر پاکستانی وفد کے سربراہ جنرل شہاب اسلم نے واضح طور پر یاد دلایا کہ دشمنانہ کارروائیوں کے لیے سرزمین کا استعمال روکنے کی ذمہ داری سب سے پہلے افغانستان پر عائد ہوتی ہے۔

 

ذرائع کے مطابق اسلام آباد نے واضح کیا کہ وہ کسی تیسرے ملک سے یکطرفہ کارروائیوں جیسے معاملات پر ضمانتیں نہیں دے سکتا اور نہ اس امر کو افغان سرزمین سے ہونے والی عسکریت پسندانہ سرگرمیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کا موقف تھا کہ اگر افغان سرزمین عسکریت پسندوں کی طرف سے استعمال ہوتی رہی تو پاکستان کو نقصان پہنچنے سے پہلے اس خطرے کو ختم کرنے کا حق محفوظ رہے گا۔ جب ثالثوں کی طرف سے افغانوں کو یقین دہانیاں پیش کرنے کی اجازت دینے پر زور دیا گیا تو پاکستانی وفد نے اس بات پر زور دیا کہ جھوٹی تردیدوں کو زمینی حقائق پر ترجیح نہیں دی جائے گی۔ جنرل شہاب نے زوردے کر کہا کہ پاکستان نے سرحد پار عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کے معتبر، مصدقہ شواہد پیش کیے ہیں جن میں نقل و حرکت، اڈے اور کمانڈ کی معلومات شامل ہیں اور اسلام آباد کو محض بیان بازی پرمبنی یقین دہانیوں کی بجائے ٹھوس  اور قابل عمل اقدامات کیے جانے چاہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ مزاکرات کے دوران دونوں فریقوں کی طرف سے تین بار مسودے کو حتمی شکل دی گئی۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ افغان فریق اس بار متفقہ مسودے پر قائم رہے، تیسری بار معاہدے کا مسودہ تیار ہونے کے بعد جنرل شہاب نے افغان فریق سے پوچھا کہ اسلام میں بتایا گیا ہے کہ جو کچھ بھی تین بار کہا جائے یا تین بار کیا جائے وہ حتمی تصور ہوتا ہے توکیا یہ اب آپ کی طرف سے حتمی ہے؟ اس ہر افغان وفد نے "ہاں” میں جواب دیا۔ تاہم حیران کن طور پر حتمی مسودے پر اتفاق کرنے کے فورا ً بعد معاہدے پر دستخط سے پہلے افغان فریق ایک بار پھر مذاکراتی کمرے سے باہر گیا۔ کابل میں اعلی حکام کے ساتھ فون پر بات کرنے کے بعد وفد کمرے میں واپس آیا اور معاہدے کے طے شدہ حتمی مسودے سے پیچھے یٹ گیا۔ قطری اور ترک ثالث بھی تب بھونچکا رہ گئے جب افغان فریق نے یقین دہانیوں کو قابل تصدیق کارروائی میں تبدیل کرنے سے انکار کر دیا۔ ذرائع کے مطابق تین روزہ مذاکرات کے دوران کئی مواقع ایسے آئے جب افغان طالبان کے وفد نے، میزبان ممالک قطر اور ترکی کی موجودگی میں، پاکستان کے منطقی اور معقول دلائل سے اتفاق کیا، تاہم جب معاہدے پر دستخط کا وقت آیا، کابل سے موصولہ ہدایات پر افغان وفد آخری لمحات میں پیچھے ہٹ گیا۔ ایسا تین بار ہوا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کابل انتظامیہ کی افغان وفد کو دی جانے والی ہدایات معاہدے کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنیں۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!