عمران خان کی مقبولیت تو برقرار لیکن سٹریٹ پاور کیوں ختم ؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا ہے کہ عمران خان دو برس سے قید ہونے کے باوجود اپنی عوامی مقبولیت برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں، لیکن انکی جماعت سٹریٹ پاور کے ذریعے مزاحمت دکھانے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ مستقبل قریب میں خان کی رہائی اور دوبارہ حکومت حاصل کرنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے سیاسی تجزیے میں مظہر عباس کہتے ہیں کہ بات اگر ووٹ پر آ جائے تو تمام مشکلات کے باوجود آج بھی تمام سروے یہی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف اور عمران خان کی مقبولیت برقرار ہے جسکی ایک تازہ مثال حال ہی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کا پنجاب میں بلدیاتی الیکشن ملتوی کرنا اور پنجاب حکومت کا بلدیاتی نظام میں بڑی بنیادی نوعیت کی تبدیلی کرنا نظر آتا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ بظاہر عمران خان کو کوئی ریلیف ملنے کا امکان نظر آتا جسکی ایک بڑی وجہ جہاں ریاستی دبائو ہے تو دوسری طرف خود جماعت کی ناکامی ہے۔
مظہر عباس کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف عمران خان کی رہائی کے لیے سٹریٹ پاور نہیں دکھا سکی۔ اسی لیے کپتان نے گنڈاپور کی جگہ سہیل آفریدی کو وزیر اعلی بنا دیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سہیل آفریدی ایسا کیا مختلف کریں گے جو گنڈا پور نہ کر پائے۔ سہیل آفریدی نے خود ہی اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ وہ احتجاجی سیاست کے چیمپئن ہیں ایسے میں کچھ دوستوں کو یہ بھی خدشہ ہے کہ کہیں وہ کوئی سیاسی خود کش حملہ نہ کر دیں کیونکہ ماضی کی تحریکوں بشمول خود پی ٹی آئی کی 2013 کی تحریک کو اس وقت کے طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل رہی۔ لیکن اس مرتبہ معاملہ مختلف ہے۔ عمران خان کی مزاحمت حکومت کے خلاف کم اور طاقت ور فوجی اسٹیبلشمنٹ پر دبائو بڑھانے کیلئے زیادہ ہے تاکہ مسلم لیگ (ن) یا شریفوں اور فوج کے ’اتحاد‘ کو توڑا جا سکے۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ عمران خان کو اب تک فوج کی جانب سے سوری، نو ٹاک‘ کا ہی جواب آ رہا ہے ۔ ویسے بھی سال 2025 بادی النظر میں ’سول ملٹری‘ تعلقات کے حوالے سے بہتر رہا جس کی ایک بڑی وجہ بین الاقوامی سطح پرہونے والی تبدیلیاں ہیں۔ مئی میں بھارت کے ساتھ جنگ کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال، پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں غیر معمولی گرم جوشی رہی جبکہ امریکی انتخابات میں خود پی ٹی آئی کے کیمپوں میں یہ امید پیدا ہو گئی تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے سے موجودہ حکومت کی مشکل میں اضافہ ہو گا او عمران کیلئے آسانیاں۔
ان کے مطابق پی ٹی آئی کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عام طور پر حکومت یا فوج اور خود بین الاقوامی سطح پر ان باتوں کو اس وقت محسوس کیا جاتا ہے جب اندرون ملک آپ یعنی اپوزیشن ایسا دبائو لانے میں کامیاب ہوں۔ موجودہ حکمران ’سیٹ اپ‘ نے ہر اس راستے پر نقب لگائی ہوئی ہے جہاں سے ہل جل ہوتی ہے۔ سول ملٹری تعلقات 2008ءکے بعد سے سب سے مستحکم ہیں تو دوسری طرف پچھلے دو ڈھائی سال میں پی ٹی آئی نے جب بھی دھرنے کی کال دی وہ کسی عوامی طاقت کے شو میں نہیں بدل سکا۔ آخری بڑی کوشش بانی کی ’فائنل کال‘ تھی جو نومبر 2024 کو دی لیکن وہ بری طرح ناکام ہوئی اور بشری بی بی اور گنڈا پور جوتیاں اٹھا کر اسلام آباد کے ڈی چوک سے فرار ہو گئے۔ دراصل یہ کال علی امین گنڈا پور اور علیمہ خان کی سیاسی کشمکش کا شکار ہو گئی۔
اس سے قبل جب 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر حملوں کے بعد اگر عمران خان حملہ آوروں سے سے لاتعلقی کا اعلان کر کے تنظیمی سطح پر ان کے خلاف کارروائی کرتے تو شاید کچھ برف پگھل جاتی۔ ایسا لگتا ہے پچھلے دو ڈھائی سال میں پی ٹی آئی کی جو سیاسی قیادت باہر ہے وہ یا تو سیاسی حکمت عملی بنانے میں کمزور اور ناتجربہ کار ہے یا پھر خان کی توقع پر پورا نہیں اتر پا رہی۔ ان سب سیاسی خامیوں کے باوجود موجودہ حکمران اتحاد عوامی سطح پر پی ٹی آئی کا توڑ نہیں نکال پا رہے حالانکہ اعلیٰ عدلیہ سے لے کر میڈیا تک سب ’قابو‘ میں ہیں۔ یہاں تک کہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی میں سرد جنگ تو ہو سکتی ہے مگر بات حکومت سے باہر نکلنے تک جا نہیں سکتی جب تک ’ایمپائر‘ موجود ہے۔ تیسرے حکومتی اتحادی ایم کیو ایم کا حال کچھ ایسا ہے کہ ’رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمارا ‘ تاہم اس سب کے باوجود نہ حکومت کا ’ہائوس ان آرڈر‘ ہے اور نہ ہی اپوزیشن کا اور اسی ’ڈس آرڈر‘ نے اس ہائبرڈ نظام کو مضبوط کیا ہے۔ سب سے حیران کن ردعمل یا سیاست عدلیہ اور بار میں نظر آئی۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کی قبولیت کے بعد 27 ویں ترمیم لانے میں بھی کوئی خاص دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ورنہ جو کچھ ان دو ڈھائی برسوں میں سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں اور بعض ججزز کے ساتھ ہوا وہ کسی بھی بڑی وکلا تحریک میں بدل سکتا تھا۔
کے پی میں کابینہ نہ ہونے کی وجہ سے صوبے کا نظام ٹھپ ہو گیا
انکا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے تو خیر پچھلے ڈھائی سال اڈیالہ جیل کے بیرک 804 میں رہ کر اپنے سیاسی مخالفین کے اس حوالے سے تو منہ بند کر دیے کہ یہ چند دن بھی جیل میں نہیں گزار سکتا۔ مگر معاملات پر سخت موقف کی وجہ سے خود سیاسی طور پر ان کو نقصان ہوا۔ سیاست میں ’مذاکرات‘ ،’کل کے دشمن آج کے دوست‘ اور ایک مربوط پروگرام کے ساتھ تحریک کا آغاز کرنا شامل ہوتا ہے۔ شائد 8 فروری کے انتخابات میں سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھرنا پی ٹی آئی کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت تھا مگر اس سٹیج پر تحریک انصاف صرف پی پی پی سے مذاکرات کا آغاز ہی کر دیتی تو مسلم لیگ (ن) ہی نہیں خود غیر سیاسی حلقوں میں بھی کھلبلی مچ جاتی۔ اسی طرح اگر ’تحریک تحفظ آئین‘کے تحت محمود خان اچکزئی کی قیادت میں جے یو آئی اور جماعت اسلامی کے ساتھ وسیع تر اتحاد قائم ہوتا تو حکومت اور فوج پر دبائو بڑھ سکتا تھا۔
اب اگر عمران نے سہیل آفریدی کو وزیر اعلیٰ بنا دیا ہے تو اسے اپنی سوچ کے مطابق کابینہ تو بنانے دیں۔ یہی حال پارٹی کی سیاسی کمیٹی کا ہے اور شائد ان سارے عوامل نے مل کر پارٹی کو ایک ایسے موڑ پر کھڑا کر دیا ہے جہاں تمام تر ووٹ بینک ہونے کے باوجود اب تک اپوزیشن کوئی مضبوط تحریک نہیں چلا پائی ۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ آئندہ ماہ شروع ہونے والی حکومت مخالف ’تحریک‘ کوئی مضبوط مزاحتمی تحریک میں بدل پائے گی یا نومبر کے بعد پھر ایک لمبا بریک آ جائے گا۔ جہاں تک مسلم لیگ (ن) ، پی پی پی اور ایم کیو ایم کا تعلق ہے تو وہ اب تک پی ٹی آئی کا ووٹ بینک توڑنے میں ناکام نظر آتی ہیں مگر دوسری جانب تحریک انصاف بھی اپنی سٹریٹ پاور اکٹھی کرنے میں ناکام رہی ہے۔
