وزیراعلی بلوچستان سرفراز بگٹی کی فراغت کا کتنا امکان ہے؟

 

 

 

 

بلوچستان میں ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیراعلی سرفراز بگٹی کی فراغت کے حوالے سے افواہیں گرم ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ اپنی اتحادی جماعت مسلم لیگ نون کے علاوہ وہ اپنی جماعت کی قیادت کا اعتماد بھی کھوتے نظر آتے ہیں۔

 

بلوچستان میں برسر قتدار پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر اور رکن اسمبلی میر لیاقت لہڑی نے وزیر اعلٰی سرفراز بگٹی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے الزامات عائد کیے ہیں جبکہ صوبے میں پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ن) کے ایک سینیئر رکن نے بھی کھل کر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ یاد رہے بلوچستان میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور بلوچستان عوامی پارٹی کی مخلوط حکومت ہے جس کی قیادت پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے میر سرفراز احمد بگٹی کر رہے ہیں۔

 

پیپلز پارٹی کے رکن بلوچستان اسمبلی اور پارلیمانی سیکریٹری برائے ٹرانسپورٹ میر لیاقت لہڑی نے اپنے اختلافات پبلک کرتے ہوئے سرعام کہہ دیا ہے کہ وزیراعلٰی بگٹی اپنے وزراء کے  محکموں میں مداخلت  کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ صوبائی  وزراء اور ارکان اسمبلی کو فیصلہ سازی میں بھی اعتماد میں نہیں لیا جا رہا اور سارے معاملات وزیراعلٰی سیکریٹریٹ کے چار بیوروکریٹس سے چلائے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں غربت اور بے روزگاری عروج پر ہے، لوگوں سے روزگار چھینا جا رہا ہے، عوام کو ریلیف دینے کے جھوٹے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن کوئی عملی اقدامات نظر نہیں آ رہے۔ انہوں نے صوبائی حکومت کی دو سالہ کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے صدر آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے اپیل کی کہ وہ بلوچستان پر خصوصی توجہ دیں اور خود دیکھیں کہ ’صوبے میں کس قدر مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔‘

 

ادھر صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی سمجھے جانے والے صوبائی وزیر زراعت علی حسن زہری نے بھی وزیراعلٰی بگٹی پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔ حب میں پیپلز پارٹی کے جلسے سے خطاب میں انہوں نے کھل کر اختلافات کا اظہار کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلٰی تمام ترقیاتی فنڈز اپنے علاقے بیکڑ میں خرچ کررہے ہیں۔ انہوں نے پارٹی کا بیڑا غرق کر دیا ہے اور اپنی جماعت کے اندر اختلافات کو ہوا دے رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’وزیراعلٰی پیپلز پارٹی والوں کے پاس جا کر کہتا ہے کہ میں آپ کے ساتھ ہوں اور نون لیگ والوں سے کہتا ہے کہ میں آپ کے ساتھ ہوں، لیکن حقیقت میں سرفراز بگٹی کسی کے ساتھ نہیں بلکہ صرف اپنے ذاتی مفاد کے ساتھ ہے۔ علی حسن زہری نے وزیراعلیٰ پر کرپشن کے الزامات بھی لگائے۔‘

 

دوسری جانب نون لیگ سے تعلق رکھنے والے سینیئر رہنماء رکن صوبائی اسمبلی نواب چنگیز مری بھی وزیراعلیٰ بگٹی سے سخت ناراضی ہیں۔ میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’ہمیں زبردستی سرفراز بگٹی کی حکومت کا اتحادی بنایا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے لوگوں نے ہمت کی ہے کہ اپنی آواز بلند کی اور بگٹی کو بے نقاب کیا، لیکن مسلم لیگ نون والوں میں ابھی یہ ہمت نہیں۔ جب نواب چنگیز سے پوچھا گیا کہ اگر وزیر اعلٰی کے خلاف تحریک عدم اعتماد آتی ہے تو کیا وہ اس کا ساتھ دیں گے تو انہوں نے جواب دیا کہ ’سو فیصد۔‘

تاہم ن لیگ سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر نور محمد دمڑ نے اختلافات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ’وزیراعلٰی بگٹی کہیں نہیں جا رہے۔ انکا کہنا تھا کہ ساٹھ پینسٹھ ارکان میں ایک دو کے وزیر اعلی سے اختلافات ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہم سب اتحادی وزیراعلٰی کے ساتھ ہیں۔‘

 

ادھر وزیراعلٰی سرفراز بگٹی کی جانب سے اپنے خلاف دیے جانے والے بیانات پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ تاہم پیپلز پارٹی بلوچستان کے جنرل سیکریٹری ربانی کاکڑ نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے پارٹی رہنماؤں کے اختلافی بیانات کا نوٹس لیا ہے اور دونوں فریقین کو طلب کر لیا ہے۔ ان کے مطابق ’جمہوری پارٹیوں میں اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن اس کے اظہار کے لیے فورمز موجود ہیں۔ پارٹی نے ارکان کو ہدایت کی ہے کہ بیان بازی کے بجائے متعلقہ فورمز پر اپنے تحفظات اور شکایات پیش کریں۔ انہوں نے کہا کہ اختلافات اتنے سنگین نہیں اور ہم لوگ مل بیٹھ کر مسائل حل کرلیں گے۔

بلوچستان کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ یہ اختلافات نظریاتی نہیں بلکہ زیادہ تر ترقیاتی فنڈز اور اختیارات کے گرد گھومتے ہیں۔ ان کے مطابق علی حسن زہری نے وزیراعلٰی پر پارٹی کو توڑنے جیسے سنگین الزامات لگائے ہیں۔ اگر الزامات درست ہیں تو زرداری اور بلاول بھٹو کو نوٹس لینا چاہیے لیکن اگر ایسا نہیں تو پھر پارٹی ڈسپلن توڑنے پر کارروائی ہونی چاہیے کیونکہ بیان بازی سے پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

حکومت تیز تر انٹرنیٹ کمپنی کی راہ میں رکاوٹ کیوں بن گئی؟

یاد رہے کہ بلوچستان میں گزشتہ حکومتیں غیرمستحکم رہی ہیں۔ ایک دہائی کے دوران دو وزرائے اعلٰی کو تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا۔ اب اندرونی اختلافات کی خبریں سامنے آنے کے بعد ایک بار پھر وزیراعلٰی کی تبدیلی پر بحث کی جا رہی ہے۔ تاہم شہزادہ ذوالفقار کا خیال ہے کہ فی الحال وزیراعلٰی کی تبدیلی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

انہوں نے کہا کہ ’بلوچستان میں پیپلز پارٹی کے اندر اٹھنے والی آوازیں تب تک وزیراعلٰی کے لیے خطرہ نہیں جب تک پارٹی کی مرکزی قیادت نہ چاہے۔

 

سینیئر صحافی شہزادہ ذوالفقار سمجھتے ہیں کہ وزیراعلٰی کی تبدیلی کی خبریں حقیقت سے زیادہ خواہشات پر مبنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اصل اختلافات فنڈز، نوکریوں، اختیارات اور زمینوں کی تقسیم جیسے معاملات پر ہیں۔ اس بار وزرا اور اراکین کو پچھلی حکومتوں کے مقابلے میں کم فنڈز ملے ہیں۔ انکے مطابق پہلے تین سے چار ارب روپے ترقیاتی فنڈز ملتے تھے لیکن اس بار کسی کو بھی 65 کروڑ روپے سے زائد نہیں ملے۔ یہ سب کچھ جن طاقتور قوتوں کے کہنے پر ہوا ان کے خلاف کہنے کی کسی کی جرأت نہیں اور سارا ملبہ وزیراعلیٰ پر ڈالا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں سیاسی جماعتوں کا کردار محدود ہو چکا ہے۔ طاقت کا محور اب فوج ہے جس کی مرضی کے بغیر کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ اس وقت صوبے میں امن و امان کا چیلنج سب سے بڑا ہے جس سے نمٹنے کے لیے وزیر اعلٰی اکیلے کھڑے نظر آتے ہیں جبکہ ان کے باقی وزرا خاموش ہیں۔ ایسے میں فوج اور دونوں بڑی جماعتیں بگٹی کو وزارت اعلی سے ہٹا کر صوبے میں سیاسی بحران کھڑا کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔

 

Back to top button