کورٹ مارشل کا شکار سابق ایئر مارشل نے کون سا راز افشا کیا تھا؟

بالآخر پاکستان ایئر فورس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ بغاوت اور جاسوسی کے الزام میں کورٹ مارشل کے بعد 14 سال سزا قید کی سزا پانے والے ریٹائیرڈ ایئر مارشل جواد سعید پر ’آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ’ کی معلومات ایک غیر ملکی ایجنٹ کے ساتھ شئیر کرنے کا الزام ہے۔

واضح رہے کہ آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ پاک فضائیہ نے 27 فروری 2019 کو کیا تھا جسکا مقصد 26 فروری 2019 کو پاکستانی علاقے بالا کوٹ پر بھارتی فضائیہ کے حملے کا جواب دینا تھا۔ ایئر مارشل ریٹائرڈ جواد سعید نے سوئفٹ ریٹارٹ نامی پاکستانی فضائی آپریشن کی قیادت کی تھی۔ دراصل بھارت نے کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ایک فوجی قافلے پر حملے میں 40 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بالا کوٹ پر حملہ کیا تھا۔ پاکستان کے جوابی حملے کے بعد دو بھارتی جہاز پاک فضائیہ کے جہازوں کا پیچھا کرتے ہوئے پاکستانی حدود میں داخل ہو گئے تھے جن میں سے ایک گرا دیا گیا اور یوں انڈین پائلٹ ابھی نندن گرفتار ہو گیا تھا۔

اگلے روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج خادم حسین سومرو کی عدالت میں ایئرمارشل ریٹائرڈ جواد سعید کی اہلیہ شازیہ جواد کی جانب سے دائر کردہ درخواست کی سماعت کے دوران پاک فوج کے جج ایڈووکیٹ جنرل ایئر کموڈور نفیس چیمہ پیش ہوئے اور بتایا کہ مجرم ایئر مارشل جواد سعید نے آپریشن سوئفٹ کی معلومات کسی غیر ملکی سے شیئر کی تھیں جس کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔ یاد ریے کہ جواد سعید مارچ 2021 میں ایئر مارشل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔ اس سے پہلے انھیں مختلف خدمات پر سرکاری اعزازات سے بھی نوازا گیا تھا۔ تھری سٹار ایئر مارشل کا عہدے لیفٹیننٹ جنرل کے برابر تصور کیا جاتا ہے۔

کورٹ مارشل کا شکار ہونے والے ایئر مارشل کا نام ریٹائرمنٹ سے قبل مارچ 2021 میں فضائیہ کے سب سے سینیئر افسران کی اس سمری میں شامل تھا جو تب کے وزیر اعظم عمران خان کو ایئر چیف کی تعیناتی کے لیے بھیجی گئی تھی۔ وہ ایئر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد میں اسسٹنٹ چیف آف ایئر سٹاف اور ڈپٹی چیف آف ایئر سٹاف بھی تعینات رہے۔ ایئر مارشل جواد سعید کی بازیابی کے لیے دائر کردہ کیس کی سماعت کے دوران بتایا گیا کہ 27 جنوری 2024 کو ریٹائرڈ ایئر مارشل جواد سعید کا کورٹ مارشل ہوچکا ہے۔ اس کے بعد 11 مارچ 2024 کو ان کی سزا کے خلاف اپیل پر بھی فیصلہ ہو چکا ہے جبکہ اب ان کی رحم کی اپیل ایئر چیف مارشل کے پاس زیر التوا ہے۔

عدالت کو بتایا گیا کہ ریٹائرڈ ایئر مارشل جواد سعید کے خلاف آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی خلاف ورزی کے 6 الزامات لگائے گے تھے جو ثابت ہو جانے کے بعد انھیں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی، تاہم ان کی اپیل پر سزا میں دس سال کی کمی کر کے اسے چار سال کر دیا گیا۔ درخواست گزار کے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جب ایک معاملے میں انہیں جاسوسی اور بغاوت کے الزامات میں سزا سنا دی گئی ہے تو پھر ان کے خلاف تحقیقات دوبارہ کیسے شروع کی جاسکتی ہیں؟

ریٹائرڈ کرنل عبدالرحیم کا کہنا تھا کہ پاک فضائیہ کا ‘آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ’ کامیاب ہوا تھا اور جواد سعید اس آپریشن کے دو سال کے بعد ریٹائرڈ ہو گئے۔ وکیل کا موقف تھا کہ جواد سعید نے اپنی سروس کے دوران آپریشن کی تفصیلات کسی سے شیئر نہیں کیں تو اپنی ریٹائرمنٹ کے تین سال بعد وہ ایسا کیوں کرتے۔

درخواست گزار کے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے کا کہنا تھا کہ ’سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم کے بعد ایک خصوصی عدالت قائم کی گئی ہے جبکہ فوجی عدالت اس جرم کے تحت درج ہونے والے مقدمے کی سماعت نہیں کرسکتی۔‘

ایئرمارشل ریٹائر جواد سعید کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلانے سے متعلق دلائل دیتے ہوئے انھوں نے ریٹائرڈ میجر جنرل حسن عسکری کے بیٹے کے مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس مقدمے میں مقامی مجسٹریٹ نے حسن عسکری کے بیٹے کو فوج کی تحویل میں دیا تھا۔ ریٹائرڈ میجر جنرل کے بیٹے نے سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف فوج کی اعلی کمان کو خط لکھا تھا۔

کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کے واقعات میں جن 103 ملزمان کو فوج کے حوالے کیا گیا تھا ان کی حوالگی کا فیصلہ بھی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے کیا تھا۔ لیکن انکا کہنا تھا کہ ‘ایئرمارشل ریٹائرڈ جواد سعید کے معاملے میں ایسا نہیں کیا گیا۔’

عدالتی استفسار پر جج ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مجرم کے خلاف ہونے والا ٹرائل چونکہ ایک حساس معاملہ تھا اس لیے انھیں کوئی سویلین وکیل نہیں دیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ چونکہ یہ حساس معاملہ تھا اس لیے مجرم کے کورٹ مارشل کے بعد انھیں جیل میں نہیں بھیجا گیا بلکہ ایئرچیف کے حکم کے مطابق ایک میس کو سب جیل قرار دیا گیا ہے جہاں پر جیگ برانچ کے اہلکار کے بقول وی آئی پیز سہولیات فراہم کی گئیں ہیں جن پر روزانہ تین لاکھ روپے خرچہ آتا ہے۔

سماعت کے دوران جج ایڈووکیٹ جنرل کی جانب سے ایئر مارشل ریٹائرڈ جواد سعید کے خلاف ہونے والے کورٹ مارشل کی کارروائی کے بارے میں بند لفافے میں دستاویز عدالت میں پیش کی گئیں، جسٹس خادم سومرو نے اس بند لفافے کو کھول کر عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دیا۔ عدالت نے جواد سعید کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ ایئرفوس حکام نے تسلیم کیا ہے کہ جواد سیعد کا کورٹ مارشل ہوچکا ہے اور وہ ان کی تحویل میں ہیں اس لیے اب یہ حبس بےجا کا معاملہ نہیں رہا۔انھوں نے وکیل سے کہا کہ اگر وہ چاہیں تو وہ کورٹ مارشل کی کارروائی عدالت میں چیلنج کر سکتے ہیں جس کے بعد درخواست گزار نے حبس بےجا سے متعلق اپنی درخواست واپس لے لی۔

سماعت کے دوران جج ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت سے استدعا کہ چونکہ یہ حساس معاملہ ہے اس لیے میڈیا پر اس کی کوریج پر پابندی لگائی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ درخواست گزار کے وکیل کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ میڈیا پر اس بارے میں کوئی بیان نہ دے تاہم عدالت نے کہا کہ چونکہ اس درخواست پر عدالتی کارروائی اوپن ہوئی ہے اس لیے وہ ایسا کوئی آرڈر پاس نہیں کریں گے۔

Back to top button