نوبیل امن انعام حاصل کرنے کے لیے صدر ٹرمپ کو کیا کچھ کرنا ہو گا ؟

معروف اینکر پرسن حامد میر نے کہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ پاکستان اور بھارت اور اسرائیل اور ایران کے مابین سیز فائر کروا کر خود کو نوبیل امن انعام کا حقدار سمجھ رہے ہیں لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ جب تک اسرائیل کا فلسطینی مسلمانوں اور انڈیا کا کشمیری مسلمانوں پر ظلم جاری رہے گا، ان کا یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ نے مئی میں پاکستان اور بھارت کا مابین سیز فائر کرایا اور جون میں اسرائیل اور ایران کا سیز فائر کرایا۔ یہ دو سیز فائر کروا کر وہ امن کا نوبیل انعام لینا چاہتے ہیں لیکن جب تک کشمیر میں انڈیا کا ظلم و ستم جاری ہے اور غزہ میں اسرائیل فلسطینیوں کو قتل کر رہا ہے، صدر ٹرمپ کو نوبیل انعام کا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطین میں اسرائیل کے ہاتھوں قتل عام اکتوبر 2023 سے جاری ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ عالمی میڈیا اس قتل عام میں مارے جانے والے فلسطینیوں کی تعداد پچاس سے ساٹھ ہزار کے درمیان بتا رہا ہے لیکن اسرائیلی اخبارات نے یہ تعداد ایک لاکھ تک پہنچا دی ہے۔
سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ آج سے 50 سال بعد صہیونی مکتب فکر نتین یاہو کو اپنا ہیرو قرار دے گا جس نے غزہ میں ایک لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو قتل کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی نیتن یاہو کے دوست اور فلسطینیوں کے دشمن کے طور پر یاد کیا جائے گا لیکن مسلم ممالک کے ان حکمرانوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو ’’غزہ کے قتل عام‘‘ کو خاموشی سے دیکھتے رہے اور کبھی کبھار اس کی مذمت میں کوئی بیان جاری کردیتے تھے۔ مسلم دنیا کے اکثر حکمران مسئلہ فلسطین کا حل دو ریاستی فارمولے کو قرار دیتے رہے جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنی قرارداد 181 میں پیش کیا تھا لیکن کوئی بھی مسلم حکمران یہ نہیں بتاتا کہ اسرائیل اسی قرارداد کے ذریعے قائم ہوا اور پھر ہمیشہ اسی قرارداد کی دھجیاں بکھیرتا رہا۔
اسرائیل نے ’’غزہ کے قتل عام‘‘ کی وجہ اکتوبر 2023 میں فلسطینیوں کی مزاحمتی تنظیم حماس کا اسرائیل پر حملے کو قرار دیا لیکن کسی بھی مسلم حکمران نے یہ نہیں بتایا کہ حماس نے یہ حملہ اسرائیل پر نہیں کیا تھا بلکہ ان علاقوں کو واگزار کرانے کیلئے کیا جن پر اسرائیل نے 1948 کے بعد قرارداد 181 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ناجائز قبضہ کر لیا تھا کیونکہ قرار داد181 کے تحت تقسیم فلسطین کے پلان میں یہ علاقے فلسطینی ریاست میں شامل کئے گئے تھے۔ یاد رکھئے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی 1974 میں اپنی قرارداد 3314 میں طے کر چکی ہے کہ غاصب اور قابض فوج کے خلاف حق خود ارادیت کیلئے مسلح جدوجہد جائز تصور ہو گی۔ میں حماس کی طرف سے اس حملے میں عورتوں، بچوں اور معمر افراد کو نشانہ بنانے کو درست نہیں سمجھتا لیکن حماس کا موقف ہے کہ انہوں نے فلسطینی علاقوں پر ناجائز قبضہ کرکے یہودی بستیاں بنانے والوں پر حملہ کیا کیونکہ اسرائیلی فوج نے غزہ کو محاصرے میں لیکر ہمارا پانی اور خوراک بند کر رکھی تھی۔
حامد میر کے بقول حماس کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل اور امریکہ فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر وہاں یہودیوں کو بسانا چاہتے ہیں۔ فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کا منصوبہ 1965 ءسے زیرغور ہے۔ ابتدا میں فلسطینیوں کو یہاں سے نکال کر عراق یا لیبیا بھیجنے کا منصوبہ تھا۔ 1968 میں اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کیلئے ایک خصوصی یونٹ بنایا اور فلسطینیوں کو اردن کی طرف دھکیلنا شروع کیا جس پر غزہ میں مزاحمت تیز ہوگئی اور 1970 میں پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین نے تین ہوائی جہاز اغوا کر لئے۔
چین کے دیرینہ ساتھی پاکستان نے امریکہ سے دوستی کیسے نبھائی؟
کچھ مغربی مبصرین آج حماس کو ایران کی پراکسی قرار دیتے ہیں۔ پچاس سال پہلے پی ایل او اور آیت اللہ خمینی کے تعلقات پر شور مچایا جاتا تھا کیونکہ خمینی کے حامی پی ایل او سے فوجی تربیت لیتے تھے۔ 1979 میں انقلاب ایران کے بعد پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات فلسطین مزاحمت کی علامت تھے۔ پھر مسلم ممالک کے حکمرانوں نے انہیں امریکہ کے ساتھ مل کر اسرائیل سے مذاکرات کی طرف دھکیلا۔ 1993 ءمیں اوسلو معاہدے کے تحت یاسر عرفات کو ایک کمزور سی فلسطینی ریاست دیکر پی ایل او کو خانہ جنگی میں الجھا دیا گیا، پی ایل او کی ساکھ مجروح ہونے سے حماس سامنے آئی۔ حماس کے اکثر رہنمائوں کا تعلق ان علاقوں سے تھا جن پر اسرائیل نے ناجائز قبضہ کر لیا تھا لہذا انہوں نے قابض شدہ علاقے چھڑوانے کی کوشش کرنے کا فیصلہ کیا۔
حامد میر کہتے ہیں کہ جو مسلم حکمران مسئلہ فلسطین کا حل دو ریاستی فارمولا قرار دیتے ہیں کیا وہ یہ بتائیں گے کہ فلسطینی علاقوں پر قبضہ ختم کرائے بغیر یہ فارمولا قابل عمل ہے یا نہیں؟ فلسطین اور کشمیر میں رپورٹنگ کرنے والے جنوبی افریقہ کے صحافی آزاد عیسیٰ نے اپنی کتاب میں نیتن یاہو اور نریندر مودی کے خفیہ اتحاد کا پردہ چاک کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مودی نے اسرائیل کی مدد سے کشمیرکو نیا غزہ بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اگر ہم غزہ والوں کو نہ بچا سکے تو کشمیریوں کو بچانا مشکل ہوگا۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ پچاس سال بعد ہماری اولادیں ہمیں کس نام سے یاد کریں گی؟۔