کون کون سے ٹیکس چور پاکستانی FBRکے شکنجے میں آنے والے ہیں؟

ایف بی آر یعنی فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے پرتعیش زندگی گزارنے والے ایسے پاکستانیوں کے خلاف شکنجہ کسنے کا فیصلہ کر لیا ہے جو اپنے ٹیکس گوشواروں میں تو معمولی آمدن ظاہر کرتے ہیں مگر حقیقت میں کروڑوں روپے کے اثاثوں کے مالک ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایف بی آر نے ایسے ٹیکس نادہندگان کی فہرستیں تیار کر لی ہیں جو نہ صرف قیمتی گاڑیوں، برانڈڈ کپڑے، بیگز اور بیش قیمت گھڑیوں کے مالک ہیں بلکہ ان کے سال میں کئی کئی بار غیر ملکی دوروں کے شواہد بھی موجود ہیں۔ ایف بی آرنے اب تمام ایسے ٹیکس چوروں کو کٹہرے میں لانے کیلئے عملی اقدامات کا آغاز کر دیا ہے جس کے بعد آنے والے دنوں میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق ایف بی آر کے لائف سٹائل مانیٹرنگ سیل نے ممکنہ ٹیکس چوروں کی تفصیلات ایف بی آر ہیڈکوارٹرز اور متعلقہ ریجنل ٹیکس دفاترکو بھیج دی ہیں تاکہ ان افراد کے خلاف باضابطہ کارروائی شروع کی جا سکے جنہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی پرتعیش جائیدادیں اور آمدن ظاہر کی مگر اپنے جمع کردہ انکم ٹیکس گوشواروں میں کوئی نمایاں آمدن نہیں بتائی۔ لائف سٹائل مانیٹرنگ سیل کی تحقیقات کے مطابق لاہور کی ایک فنانشل ٹیکنالوجی کمپنی کے سی ای او کے پاس 30جدید ماڈل کی گاڑیاں موجود ہیں، جن کی مجموعی مالیت 2.741ارب روپے ہے۔ ان گاڑیوں میں ایک لیمبورگینی ایونٹیڈور شامل ہے جس کی مالیت 30کروڑ روپے بتائی گئی ہے، ایک رولز رائس فینٹم جس کی قیمت 25کروڑ روپے ہے، ایک اور لیمبورگینی ایونٹیڈور جس کی مالیت 30کروڑ روپے ہے، اور اس کے علاوہ ان کی ملکیت میں کئی دیگر قیمتی گاڑیاں اوراثاثے بھی شامل ہیں تاہم، جب ان کی ٹیکس ریٹرنز کی جانچ پڑتال کی گئی تو معلوم ہوا کہ ٹیکس دہندہ کی جانب سے حاصل کی گئی ان مہنگی گاڑیوں میں سے کوئی بھی گاڑی اپنی انکم ٹیکس ڈیکلریشن میں ظاہر نہیں کی ایف بی آر حکام کے مطابق ٹیکنالوجی کمپنی کے سی ای او نے اپنی مہنگی گاڑیوں اور دیگر اثاثوں کے ذریعے اپنے پرتعیش طرزِ زندگی کوتو نمایاں کیا، لیکن ٹیکس ریٹرنز میں ان کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ ان کے گوشواروں کا جائزہ لینے سے ظاہر ہوا کہ ان کی آمدنی اور اثاثوں میں نمایاں تضاد موجود ہے۔
اسی طرح لاہور کے ایک ٹریول انفلوئنسر نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹس میں یہ دکھایا ہے کہ وہ گزشتہ پانچ برسوں یعنی 2021سے 2025 کے دوران 25سے زائد ممالک کا سفر کر چکی ہیں، تاہم انہوں نے اپنی آمدنی صرف 4لاکھ 42ہزار 46روپے سے لے کر 37لاکھ 90ہزار روپے تک ظاہر کی ہے۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ایک اور سوشل میڈیا انفلوئنسراور ماڈل نے اب تک 13 ممالک کا سفر کیا ہے۔ ان کے پاس زری زیم جیولری، بین الاقوامی برانڈز کے متعدد لگژری ملبوسات، لوئی وٹون نیورفل ایم ایم ہینڈ بیگ، گُچی کے کپڑے اور زیورات، ہونڈا سوک سے ٹویوٹا لینڈ کروزر تک کا سفر، ڈیوَر بُک ٹوٹ بیگ، رولیکس گھڑی، اعلیٰ معیار کے سرمائی ملبوسات، لگژری ریزورٹ وئیر ایکسیسریز اور قیمتی برقی آلات موجود ہیں۔ تاہم، انہوں نے گزشتہ چند برسوں میں اپنی آمدنی صرف 35لاکھ سے 54لاکھ 90ہزار روپے کے درمیان ظاہر کی ہے۔
مبصرین کے مطابق ایف بی آر نے ممکنہ ٹیکس چوروں کے اثاثوں اور آمدنی کی جانچ پڑتال ایسے وقت میں کی ہے جب ٹیکس وصولی کا نظام اپنے سالانہ ٹیکس ہدف 14.13ٹریلین روپے کے حصول کے لیے ایک مشکل مرحلے سے گزر رہا ہے۔ اب تک، رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ یعنی جولائی سے اکتوبر کے دوران ایف بی آر کو ٹیکس وصولی کے اہداف میں 274 ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
ایف بی آر حکام کے مطابق اب ٹیکس چور یوٹیوبرز اور انفلوئنسرز کا بچ نکلنا ممکن نہیں رہا کیونکہ سوشل میڈیا پر پرتعیش لائف سٹائل، لگژری گاڑیاں، مہنگے برانڈز اور غیر ملکی سفر۔اب صرف تفریح نہیں رہے، بلکہ ایف بی آر کی نظر میں ممکنہ ٹیکس شواہد بن چکے ہیں۔ اب ایف بی آر نے اُن تمام یوٹیوبرز اور انفلوئنسرز کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کر لیا ہے جو اپنی سوشل میڈیا پوسٹوں میں تو امارت کے جھنڈے گاڑتے ہیں مگر ٹیکس ریٹرنز میں خود کو غریب ظاہر کر کے قومی خزانے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اب ایسے ’’ڈیجیٹل ارب پتیوں‘‘ کے لیے ایف بی آر کی گرفت سے بچ نکلنا آسان نہیں ہوگا۔
