کیا ایف آئی اے افسران کی گرفتاری ڈکی بھائی کورہائی دلواسکتی ہے؟

ملک میں آن لائن جوئے ، سٹے اور ڈیجیٹل فراڈ کے حوالے سے سامنے آنے والے ڈکی رشوت سکینڈل نے نیشنل سائبر کرائمز انویسٹی گیشن ایجنسی کے پورے نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بدعنوانی کے انکشاف نے نہ صرف ایف آئی اے کے داخلی نظام پر سوالات اٹھا دئیے ہیں بلکہ اس کے نتیجے میں ڈکی بھائی کیس بھی قانونی پیچیدگیوں کا شکار ہوتا نظر آتا ہے۔ بعض قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ تحقیقات میں سامنے آنے والی بے ضابطگیوں کی وجہ سے ملزم سعدالرحمان عرف ڈکی بھائی کی ممکنہ رہائی کے امکانات بھی پیدا ہو گئے ہیں۔ تاہم، ایف آئی اے کے ذرائع اس تاثر کی نفی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈکی بھائی اور دیگر شریک ملزمان کے خلاف تمام ڈیجیٹل شواہد اور مالی ریکارڈ عدالت میں جمع کرائے جا چکے ہیں، اس لیے ملزمان کو مکمل ریلیف ملنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تاہم سابق افسران کے سامنے آنے والے سکینڈل کے بعد اگر نئے تفتیشی افسران بد نیتی یا دباؤ کے تحت پہلے سے موجود شواہد میں کسی قسم کا رد و بدل کرتے ہیں تو کیس کی شفافیت ضرور متاثر ہو سکتی ہے۔
خیال رہے کہ آن لائن جوا ایپس کی تشہیر کے الزام میں گرفتار یوٹیوبر سعد الرحمان عرف ”ڈکی بھائی کیس میں این سی سی آئی اے کے بد عنوان افسران کی جانب سے مجموعی طور پر 20 کروڑ روپے سے زائد رشوت وصولی کا انکشاف ہوا ہے۔ ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کی جانب سے ڈکی بھائی کو ریلیف دلوانے کے بدلے 15کروڑ روپے رشوت لینے کے الزام کے بعد ایف آئی اے نے تحقیقات کا دائرہ پورے ملک میں پھیلا دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتدائی شواہد سامنے آنے کے بعد ادارے کے اندر موجود متعدد افسران کے خلاف بھی کارروائی کا امکان ہے۔ توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ آئندہ چند دنوں میں ایف آئی اے کے اندر چھپی کئی “کالی بھیڑیں” بے نقاب ہو جائیں گی۔
تحقیقات کے مطابق، گرفتار افسران نے یوٹیوبرز ، ٹک ٹاکرز، آن لائن ٹریڈنگ ایپس کے پروموٹرز اور دیگر مجرم گروہوں سے ماہانہ بنیادوں پر بھاری رقوم وصول کیں، تاکہ انہیں قانونی کارروائی سے محفوظ رکھا جاسکے۔ ان رقوم کی ادائیگی کبھی نقد کبھی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے اور کبھی بائنانس جیسے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر کی گئی۔ ذرائع کے مطابق ، اب رشوت کی یہی رقم ان افسران کے خلاف براہ راست شواہد میں تبدیل ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں ایف آئی اے نے سات افسران کو گرفتار کر لیا۔ جن میں ڈپٹی ڈائر یکٹر محمد عثمان، ایڈیشنل ڈائریکٹر چوہدری سرفراز، اسٹنٹ ڈائریکٹر شعیب ریاض علی رضا، زوار، یا سر گجر اور ایک دیگر افسر شامل ہیں۔ ایف آئی اے کے ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈکی کیس میں شامل کئی افسران کے خلاف شکایات ادارے کے اندر کافی عرصے سے موجود تھیں۔ ابتدائی تفتیشی افسر چوہدری سرفراز اور ان کی ٹیم پر یہ الزامات تھے کہ انہوں نے سعد الرحمن عرف ڈ کی بھائی کے مقدمے میں ریلیف فراہم کرنے کے عوض بھاری رقم وصول کی۔ جب ان کے خلاف اندرونی انکوائری شروع ہوئی تو انہیں ہیڈ کوارٹر اسلام آباد رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا لیکن انہوں نے چھ ماہ کی رخصت لے لی۔ ایف آئی اے کی عدالت میں جمع کروائی گئی رپورٹ کے مطابق گرفتار افسران سے مجموعی طور پر چار کروڑ پچیس لاکھ اڑتالیس ہزار روپے نقد برآمد کیے گئے۔ اس میں چوہدری سرفراز سے ایک کروڑ پچیس لاکھ اڑتالیس ہزار، شعیب ریاض سے چھتیس لاکھ اڑتالیس ہزار علی رضا سے ستر لاکھ، یاسر گجر سے انیس لاکھ اور زوار سے نو لاکھ روپے کی رقم شامل ہے۔ بقیہ رقم مختلف اکاؤنٹس میں منتقل کی گئی جس کی تفصیلات منجمد کر دی گئی ہیں۔ اس کیس میں سب سے بڑا موڑ اس وقت آیا جب اسلام آباد سے لاپتا ہونے والے ڈپٹی ڈائریکٹرمحمد عثمان کے بارے میں معلوم ہوا کہ انہوں نے ایک سوشل میڈیا انفلوئنسر سے پندرہ کروڑ روپے رشوت وصول کی تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عثمان کے پندرہ کروڑ کے مبینہ سودے کا تعلق بھی ڈکی بھائی کیسی ہی سے تھا۔ یہ رقم مبینہ طور پر ملزم سعد الرحمن عرف ڈکی بھائی اور اس کے قریبی ساتھیوں سے ریلیف دلوانے کے عوض طلب کی گئی تھی۔ ذرائع کے مطابق ڈکی رشوت سکینڈل سامنے آنے کے بعد ادارے کا مورال بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اب ہر افسر کسی بھی کیس میں فیصلہ لینے سے پہلے کئی بار سوچتا ہے۔ ان کے مطابق یہ پہلا موقع ہے جب ایف آئی اے کے ہی افسران کے خلاف ایف آئی اے خود تحقیقات کر رہی ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ تفتیشی ٹیموں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ تمام گرفتار افسران کے اثاثوں اور مالی لین دین
کی مکمل چھان بین کریں۔ ایف آئی اے نے این سی سی آئی اے کے ان افسران کے آمدنی سے زائد اثاثوں کی تحقیقات بھی شروع کر دی ہیں۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق تحقیقات کا دائرہ اب ملک بھر تک بڑھا دیا گیا ہے۔ تفتیش کے دوران معلوم ہوا ہے کہ مختلف شہروں میں سرگرم آن لائن جوئے ، سٹے اور ڈیجیٹل فراڈ کے نیٹ ورک ان افسران کو با قاعدہ ماہانہ ادائیگیاں کرتے تھے تاکہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو۔ اس حوالے سے متعدد شواہد اکٹھے کیے جارہے ہیں اور ایسے تمام افراد کی فہرستیں تیار کی جارہی ہیں جنہیں این سی سی آئی اے کے ملوث افسران نے رشوت کے عوض تحفظ فراہم کیا تھا۔
ذرائع کے مطابق لسٹوں کی تیاری کے بعد اگلے مرحلے میں ان یوٹیوبرز، ٹک ٹاکرز اور آن لائن کاروباری شخصیات کو بطور گواہ عدالت میں پیش کیا جائے گا تا کہ بدعنوان افسران کے خلاف مزید مضبوط کیس بنایا جا سکے۔ ڈکی کیس نے نہ صرف چند افسران کی بد عنوانی کو بے نقاب کیا ہے بلکہ اس نے وفاقی تحقیقاتی نظام کی اندرونی کمزوریوں، اختیارات کے ناجائز استعمال اور ڈیجیٹل جرائم کی سر پرستی کے اس گہرے نیٹ ورک کو بھی عیاں کر دیا ہے جو برسوں سے خاموشی سے کام کر رہا تھا۔ ایف آئی اے کے مطابق یہ تفتیش ابھی ابتدا ہے، آنے والے ہفتوں میں مزید گرفتاریاں، ریکوریاں اور نئے انکشافات سامنے آنے کا امکان ہے۔ حکومت نے اس واقعے کے بعد این سی سی آئی اے کے تمام شعبوں کی نگرانی مزید سخت کرنے اور مالی شفافیت کے لیے ” ڈیجیٹل انٹیگریٹی آؤٹ ٹیم تشکیل دینے کی سفارش بھی کر دی ہے۔
