پاک سعودی معاہدے پر انڈیا اور اسرائیل کو تشویش کیوں؟

پاکستان اور سعودی عرب کے مابین ہونے والے دفاعی معاہدے سے نہ صرف انڈیا بلکہ اس کا اتحادی اسرائیل بھی پریشانی میں مبتلا ہو گیا ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی جنگ ہوتی ہے تو پاکستان کو ان تمام جدید سعودی ہتھیاروں تک رسائی حاصل ہوگی جو کہ سعودی عرب نے امریکہ سے خریدے ہیں۔
دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق سعودی قیادت جانتی تھی کہ انڈیا کو پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی دفاع کے معاہدے سے شدید تکلیف ہوگی اور وہ اسے اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھے گا، لیکن اس کے باوجود ریاض نے اسلام آباد سے اہم ترین دفاعی معاہدہ کر لیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت سعودی عرب فوج میں افرادی قوت کی بھرتی کے لیے پاکستان پر انحصار کر رہا ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ سعودی عرب کا یہ رویہ نئی دہلی اور واشنگٹن کو کھلا اشارہ دے رہا ہے کہ وہ اپنا راستہ خود بنائے گا۔
یاد رہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں حال ہی میں ایک بڑی پیشرفت اس وقت دیکھنے میں آئی جب 9 ستمبر کو اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کے مذاکرات کاروں کو نشانہ بنایا۔ اس سے قبل بھی اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں کئی ممالک پر حملہ کر چکا ہے لیکن یہ کارروائی اس لیے مختلف تھی کہ قطر امریکی اتحادی ہے اور اس خطے میں اس کی سب سے بڑی العدید ایئربیس بھی قطر میں ہی واقع ہے۔ اسرائیلی حملے کے بعد نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ اس خطے سے باہر بھی یہ قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ قطر پر حملے کے بعد امریکہ کی جانب سے دی گئی سکیورٹی کی ضمانت کی کیا اوقات رہ جاتی ہے؟ یہ تاثر بھی ابھر رہا تھا کہ قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک کا بھی ان ضمانتوں پر اعتماد متزلزل ہو گا۔
ان تمام سوالات کے ابھی پوری طرح سے جواب نہیں ملے تھے کہ سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ ’باہمی دفاع کے سٹریٹجک معاہدے‘ پر دستخط کر دیے۔ اس معاہدے میں درج تفصیلات ابھی منظرِ عام پر نہیں آئی ہیں لیکن پاکستانی اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’اس معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو فروغ دینا اور کسی جارحیت کے خلاف مشترکہ دفاع و تحفظ کو مضبوط بنانا ہے۔ اس معاہدے کا سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ ایک ملک کے خلاف کسی دودری ملک کی جارحیت کو دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔ ایسے میں اب اگر بھارت پاکستان پر حملہ اور ہوتا ہے تو اسے یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ وہ سعودی عرب پر بھی حملہ آور ہو رہا ہے۔
اس معاہدے کے حوالے سے وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سفارت کاری اس وقت اپنے عروج پر ہے۔ ہمارے امریکہ، مغربی ممالک، خلیجی ممالک اور چین سب سے بہترین تعلقات ہیں۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ٹیم نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ ہم ایک ذمہ دار ملک ہیں۔ قطر پر اسرائیلی حملے کے تناظر میں خطے پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار دونوں ممالک کے درمیان اس معاہدے کو بہت اہم قرار دے رہے ہیں۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ معاہدہ پاکستان اور سعودی عرب کے لیے کیوں اہم ہے؟ تجزیہ کاروں کے مطابق قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد ثابت ہو گیا ہے کہ خلیجی ممالک اب واشنگٹن پر اپنی سکیورٹی کے لیے بھروسہ نہیں کر سکتے۔ وجہ یہ ہے کہ قطر پر اسرائیل نے امریکہ کی مرضی سے حملہ کیا تھا۔ اسی لیے خلیجی ممالک اپنی سکیورٹی کے لیے پاکستان کی جانب دیکھنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حالیہ جنگ میں انڈیا کو واضح شکست دینے کے بعد پاکستان ایسا ملک بن چکا ہے جو خلیجی ممالک کو ممکنہ اسرائیلی حملے کے خلاف تحفظ فراہم کر سکتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے پاس نہ صرف جوہری صلاحیت ہے بلکہ اس کا کنوینشنل اسلحہ بھی تگڑا ہے۔
قطر پر حملے کے بعد سعودی عرب صرف اپنے دفاعی نظام پر انحصار نہیں کر سکتا تھا جو کہ امریکہ کا تیار کردہ تھا اور جسے مکمل طور پر آپریشنل رکھنے کے لیے امریکی تعاون درکار ہوتا ہے۔
پاکستان میں دفاعی امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار بھی سمجھتے ہیں کہ دفاعی تعاون کا یہ معاہدہ دونوں ممالک کو مزید قریب لائے گا۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ سعودی افواج کے سربراہ پاکستان میں تربیت حاصل کرتے ہیں، دونوں ممالک کے مابین دفاعی مشقیں بھی ہوتی ہیں اور پاکستان کے سابق فوجی افسران سعودی عرب میں دفاعی مشیر کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ سعودی عرب کے پاس زیادہ تر اسلحہ امریکی ہے اور لڑاکا طیارے بھی موجود ہیں لیکن سعودی عرب مغربی ممالک سے اسلحے کی خریداری پاکستان کی مشاورت سے کرتا ہے اور ’پاکستان ہی سعودی فوجیوں کو مغربی اسلحہ استعمال کرنے کی تربیت دیتا ہے۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اس دفاعی معاہدے کے تحت کیا فوائد حاصل کر سکتا ہے؟ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس معاہدے سے نہ صرف سعودی عرب میں انڈین اثر و رسوخ کم ہو گا بلکہ پاکستان کو اقتصادی محاذ پر مدد بھی ملے گی۔
