امریکہ TTP سے مذاکرات کے لیے پاکستان پر دباؤ کیوں ڈال رہا ہے؟

پاکستان کی جانب سے افغان طالبان حکومت کو پاکستان یا تحریک طالبان میں سے کسی ایک کا بطور دوست انتخاب کرنے کا پیغام دیے جانے کے بعد ایک اہم امریکی عہدے دار نے اسلام آباد کو کابل کے ساتھ سیاسی معاملات حل کرنے کا مفت مشورہ دے دیا ہے۔
یاد رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے حال ہی میں افغان طالبان سے کہا تھا کہ یا تو وہ اپنے پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں، یا پھر ٹی پی پی کا انتخاب کر لیں۔ ادھر ایک اہم امریکی عہدیدار زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کے مسئلے کے حل کے لیے فوجی طریقہ کار اپنانے کی بجائے اسلام آباد کو کابل کے حکمرانوں کے ساتھ بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔ زلمے خلیل زاد کا یہ بیان اس تناظر میں اہمیت کا حامل ہے کہ چند روز قبل ہی پاکستان نے افغان حکومت سے کہا تھا کہ انہیں اس بات کا انتخاب کرنا ہو گا کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ کھڑے ہونا چاہتے ہیں یا تحریک طالبان کے عسکریت پسندوں کا ساتھ دینا چاہتے ہیں جو کہ مسلسل افغان سرزمین سے پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے خلاف دہشت گرد حملے کر رہے ہیں۔
یاد رہے سابق امریکی سفارت کار زلمے خلیل زاد کو صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے دور اقتدار میں افغانستان کے لیے امریکہ کا خصوصی نمائندہ نامزد کیا تھا،
زلمے نے حال ہی میں امریکی ایلچی ایڈم بوہلر کے ساتھ کابل کا دورہ کیا تھا، جہاں انہوں نے افغان طالبان کی حکومت کے اہم ارکان سے ملاقات کی۔ اپنے کابل دورے کے اختتام کے بعد زلمے خلیل زاد نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور ٹی ٹی پی کے درمیان تشدد کے نتیجے میں سکیورٹی اہلکاروں اور شہریوں کی ایک بڑی تعداد جاں بحق ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس چیلنج کا کوئی فوجی حل تلاش کرنا پاکستان کی ایک غلطی ہو گی، انہوں نے پاکستانی حکومت پر زور دیا کہ وہ پاکستانی طالبان کے ساتھ فوجی محاذ آرائی ختم کرے اور سفارتی حل کی طرف منتقل ہو۔ انہوں نے کہا کہ وہ سیاسی حکمت عملی سے مسئلے کے حل کی طرف بڑھیں اور مذاکرات کریں۔
زلمے خلیل زاد نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر لکھا کہ "پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے 2021 سے پہلے ہمیشہ امریکہ اور افغان حکومت کو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات اور سیاسی تصفیہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان بھی ایسا ہی کرنے پر غور کرے۔
انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان اپنے ملک کے اندر امن اور پائیدار استحکام چاہتا ہے، تو اس کے لیے بات چیت کا آغاز بہت ضروری ہے۔” البتہ امریکی سفارت کار نے افغانستان پر بھی زور دیا کہ وہ اس کوشش میں پاکستان کا ساتھ دے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق زلمے خلیل زاد کی جانب سے اس پیغام کا وقت اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے چند روز پہلے ہی افغان طالبان کو دوستوں کے انتخاب میں حتمی فیصلہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی کہا تھا کہ "میں افغانستان کو واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ پاکستان اور ٹی ٹی پی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلے۔ اگرچہ ٹرمپ اور امریکی فوجی حکام نے بارہا پاکستان کی جانب سے انسداد دہشت گردی میں تعاون کی تعریف کی ہے۔ تاہم خلیل زاد کے پیغام سے ایسا لگتا ہے کہ امریکہ پاکستان اور افغانستان دونوں ہی کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہتا ہے۔
یاد رہے کہ واشنگٹن میں زلمے خلیل زاد کو ایک عقابی سفارت کار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ وہ عمران خان کے ایک کھلے ہمدرد ہیں اور اس حوالے سے ماضی میں پاکستان پر سخت الفاظ میں تنقید بھی کر چکے ہیں۔ خلیل زاد کا تبصرہ عمران خان کے خیالات کی ہی بازگشت ہے، جنہوں نے خیبر پختونخواہ کے صوبے میں عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے بات چیت پر زور دیا ہے۔ اس صوبے میں پی ٹی آئی برسراقتدار ہے۔ زلمے خلیل زاد کے ایکس پر پیغام پوسٹ ہونے کے بعد ایک ٹویٹ میں عمران خان نے کہا کہ سابق قبائلی علاقوں میں شروع کی گئی کارروائیوں کے نتیجے میں پولیس، فوجی اور عام شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ "یہ نقطہ نظر کبھی بھی امن قائم نہیں کر سکتا۔ پائیدار امن صرف بات چیت کے ذریعے آتا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ کے پی میں جو کوشش ہو رہی ہے وہ محض پی ٹی آئی حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش ہے اور دعویٰ کیا کہ فوجی آپریشن سے دہشت گردی کو مزید ہوا ملے گی۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان ہمیشہ سے طالبان کے حامی رہے ہیں اور اسی لیے ان کے سیاسی ناقدین ان کو طالبان خان قرار دیتے ہیں۔
