قیدی نمبر804حکومت سے مذاکرات کیلئے ترلے کیوں کرنے لگا؟

 9 مئی کے فسادات کی پاداش میں اپنا مستقبل تاریک ہوتا دیکھ کر پی ٹی آئی رہنما مایوسی اور پریشانی کا شکار ہیں۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد عمران خان سمیت یوتھیے رہنما جان چکے ہیں کہ اگر جنرل فیض حمید آئی ایس آئی کا سابق سربراہ ہونے کے باوجود انجام سے نہیں بچ سکا تو انھیں کسی صورت معافی ملنا ممکن نہیں۔ اسی پریشانی کے عالم میں پی ٹی آئی رہنما غیر مشروط مذاکرات کیلئے اسی فارم 47 کی پیداوار شہباز حکومت کے ترلے کرتے نظر آ رہے ہیں جنہیں وہ ایک غیر قانونی اور ناجائز حکومت تصور کرتی ہیں تاہم دوسری جانب حکومت نے کسی قسم کے مذاکرات شروع کرنے سے قبل تحریک انصاف سے سول نافرمانی کی تحریک واپس لینے کی شرط عائد کر دی ہے اور قرار دیا ہے کہ دھمکیوں کے ساتھ مذاکراتی عمل قطعا آگے نہیں بڑھایا جائے گا۔

روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق جنرل فیض حمید پر فرد جرم عائد ہونے لے بعد عمران خان سمیت پارٹی کے ان رہنماؤں کو اپنا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ہے جبکہ اسج دوران سول نافرمانی کی دھمکی بھی یوتھیوں کیلئے درد سر بن چکی ہے۔ جس کی وجہ سے پی ٹی آئی قیادت سول نا فرمانی کی کال واپس لینے کے لیے فیس سیونگ ڈھونڈ رہی ہے کیونکہ پارٹی قیادت کو ادراک ہو چکا ہے کہ موجودہ حالات میں یہ دھمکی قابل عمل نہیں اور جیسے ہی انھوں نے اس دھمکی پر عملدرآمد کا آغاز کیا ان کیخلاف فوری شکنجہ کس دیا جائے گا۔

ذرائع کا دعوی ہے کہ اڈیالہ میں قید نام نہاد انقلابی عمران خان نے جلدبازی میں سول نافرمانی کی کال دے کر پوری پارٹی قیادت کو پریشانی میں ڈال رکھا ہے۔پاکستان میں موجود تحریک انصاف کی پچانوے فیصد قیادت سول نافرمانی کا بھاری پتھر چومنے سے خوفزدہ ہے اور اس کا خیال ہے کہ اس دھمکی پر عمل درآمد ممکن نہیں۔ الٹا ناکامی کا ایک اور سیاہ دھبہ پارٹی پر لگ جائے گا جبکہ اس کال کے نتائج الگ بھگتنا پڑیں گے۔ دوسری جانب فیض حمید پر فرد جرم عائد کئے جانے کے عمل نے پی ٹی آئی کی صفوں میں ہلچل پیدا کر دی ہے اور عمران خان اور بشریٰ سمیت بے بس کٹھ پتلی پارٹی قیادت کو اندازہ ہوگیا ہے کہ فیض حمید کے خلاف جو طوفان اٹھا ہے وہ جلد یا بدیر اسے بھی لپیٹ میں لے لے گا۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی جانب سے اسی طوفان سے بچنے کے لیے اسلام آباد میں احتجاج کے نام پر فساد کی حکمت عملی اپنائی گئی جو کارگر ثابت نہ ہو سکی۔26 نومبر کا احتجاج اور پھر سول نا فرمانی کی کال اسی سلسلے کی کڑی ہے جس کا مقصد حکومت اور اداروں کو دباؤ میں لاکر اس طوفان کا رخ موڑنا تھا۔

تاہم مبصرین کے مطابق فائنل کال کے حوالے سے بدترین ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے جو ہاتھ گریبان پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی تھی، اب ان ہی ہاتھوں سے پاؤں پکڑے جارہے ہیں۔ جس کے تحت حکومت سے مذاکرات کا ڈول ڈالا جارہا ہے۔ ’’ہم فارم 47 والی جعلی حکومت سے نہیں بلکہ صرف طاقت وروں سے بات کریں گے۔‘‘ کا رعونت بھرا لہجہ تبدیل ہوگیا ہے اور عمران خان کی ہدایت پر ’’ہمیں معاف کر دو‘‘ پر مبنی مذاکرات کی التجا کی جارہی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان ملک میں انتشار پھیلا کر جس خطرے سے بچنا چاہتے تھے، وہ بالکل سامنے آگیا ہے۔ انتہائی باخبر ذرائع تصدیق کررہے ہیں کہ فیض حمید والے کیس میں عمران خان، بشریٰ اور پارٹی کے چند دیگر رہنماؤں کا بچنا مشکل نہیں ناممکن ہو چکا ہے، اسی لئے مذاکرات کیلئے درد بھری التجاوں پر بھی پی ٹی آئی کو فی الحال حکومت کی طرف سے پرجوش جواب نہیں دیا جارہا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق موجودہ صورت حال نے پی ٹی آئی رہنماؤں کی انزائٹی بڑھا دی ہے۔ جیل میں بیٹھا بوڑھا انقلابی بھی فکر مند ہے۔ اس نے پارٹی رہنماؤں کو ٹاسک دیا ہے کہ ہرصورت حکومت سے مذاکرات کا آغاز کر کے بچت کا کوئی راستہ نکالا جائے۔ بانی پی ٹی آئی کے برسوں قریب رہنے والے اور ان کی شخصیت کو کسی ماہر نفسیات کی طرح جاننے والے ایک ذریعے کے بقول، عدالت کی کسی پیشی پر اپنے حامی یوٹیوبررز سے بات چیت میں قیدی نمبر آٹھ سو چار بظاہر پھر’’دھاڑتا‘‘ دکھائی دے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس بات سے ہی مکر جائے کہ اس کی ہدایت پر حکومت سے مذاکرات کی کوششں کی گئی۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ نام نہاد انقلابی کی اندر سے حالت بہت پتلی ہے اور اس کی ہدایت پر ہی پارٹی رہنما حکومت سے بات چیت شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اب حکومت پی ٹی آئی سے کھیلنا چاہتی ہے۔ اسے اس قدر گھٹنوں پر لانا چاہتی ہے کہ گھٹنے چِھل جائیں۔ پھر اگر اشارہ مل گیا تو شاید باقاعدہ مذاکرات شروع بھی کر دے۔ لیکن اس صورت میں بھی عمران خان اور شرپسند یوتھیے رہنماؤں کا نو مئی اور چھبیس مئی کے گناہوں کی سزا سے بچنا مشکل ہے۔

باخبر ذرائع نے بتایا کہ خاص طور پر نو مئی کے حوالے سے عمران خان اور ان کے چند قریبی رہنماؤں کی بچت اس لیے مشکل ہے کہ فیض حمید سے دوران تفتیش حاصل کردہ معلومات میں ٹھوس شواہد مل چکے ہیں کہ اس واقعہ کا ماسٹر مائنڈ عمران خان تھا۔ اس سلسلے میں کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران فیض حمید کی جانب سے تہلکہ خیز انکشافات متوقع ہیں۔ ذرائع کے بقول عمران خان کو سانحہ 9 مئی کے جرائم پر سزا سے چھٹکارا ملنا مشکل ہے کیونکہ مقتدر قوتیں یہ فیصلہ کر چکی ہیں کہ نو مئی کے تمام ذمہ داروں کو عبرت کا نشان بنایا جائے گا تاکہ آئندہ کسی کو ایسا ایڈونچر کرنے کی جرات نہ ہو۔

Back to top button