تحریک لبیک کے رہنما دھڑا دھڑ اپنی پارٹی کیوں چھوڑنے لگے؟

جس طرح 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر حملوں کے بعد تحریک انصاف کے مرکزی رہنماؤں نے دھڑا دھڑ پریس کانفرنسوں میں پارٹی چھوڑنے کے اعلانات کرنا شروع کر دیے تھے، بالکل اسی طرح تحریک لبیک کے رہنماؤں خصوصاً انتخابی امیدواروں نے بھی پارٹی سے علیحدگی کے اعلانات کرنا شروع کر دیے ہیں۔
یاد رہے کہ حالیہ دنوں میں کالعدم قرار دی جانے والی ٹی ایل پی کے ٹکٹ پر 2018 اور 2024 کے انتخابات میں حصہ لینے والے کئی امیدواروں نے اپنی جماعت سے لاتعلقی کے اعلانات کیے ہیں۔ اس سے پہلے ٹی ایل پی نے 10 اکتوبر کو لاہور سے اقصیٰ مارچ کا آغاز کیا تھا، جس کا مقصد غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاج تھا۔ بعدازاں مارچ کے شرکا نے اسلام آباد تک مارچ شروع کیا اور مریدکے شہر کے باہر جی ٹی روڈ کو بلاک کر دیا۔ اس کے بعد اعلان کیا گیا کہ شرکا اسلام آباد میں امریکی ایمبیسی کے باہر دھرنا دیں گے۔ چنانچہ 13 اکتوبر کو قانون حرکت میں آ گیا اور سیکیورٹی فورسز نے کریک ڈاؤن کرتے ہوئے مریدکے کا دھرنا تتر بتر کر دیا۔ اس کارروائی کے دوران سعد رضوی کے ہاتھوں ایک ایس ایچ او مارا گیا جس کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
تحریک لبیک کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ سعد حسین رضوی اور ان کے چھوٹے بھائی انس رضوی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہو چکے ہیں اور ان کے ساتھ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم پولیس حکام کا کہنا ہے کہ دونوں بھائی مفرور ہیں اور ان کی گرفتاری کے لیے ملک بھر میں چھاپے مارے جا رہے ہیں۔پولیس حکام کے مطابق اب تک ٹی ایل پی کے پانچ ہزار سے زیادہ کارکنوں کو 70 سے زائد کیسوں میں گرفتار کیا جا چکا ہے، جبکہ گرفتاریوں کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ ایسے میں ٹی ایل پی کے ٹکٹ پر 2018 اور 2024 کے الیکشنز میں حصہ لینے والے امیدواروں کے ٹی ایل پی سے لاتعلقی کے اعلانات سامنے آنا شروع ہیں۔ ان کا انداز اور طریقہ کار بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے 9 مئی کے بعد اپنی جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے کے لیے اپنایا تھا۔
یاد رہے کہ ملتان میں محمد حسین بابر کی قیادت میں ٹی ایل پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے امیدواروں نے پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے۔ اس موقع پر بابر کا کہنا تھا کہ ’اسرائیل اور فلسطینی تنظیم حماس کے درمیان معاہدہ طے پانے کے بعد احتجاج کا کوئی جواز نہیں باقی تھا۔ پر تشدد مارچ کرنے کے باعث پارٹی سے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں۔
اس سے قبل 19 اکتوبر کو پی پی 148 لاہور سے عام انتخابات میں تحریک لبیک کے امیدوار چوہدری یونس جٹ ویڈیو پیغام کے ذریعے ٹی ایل پی چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
لیکن ٹی ایل پی کے ترجمان نے تنظیم کے انتخابی امیدواروں کی لاتعلقی کے اعلانات کو ’دباؤ کا نتیجہ‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گھروں پر چھاپوں اور گرفتاریوں سے ٹی ایل پی کے کارکنوں کو خوفزدہ نہیں کیا جا سکتا۔ جتنے مرضی امیدواروں کو ہراساں کر لیں لیکن ہمارے کارکنوں کے حوصلے بلند رہیں گے۔‘
ترجمان تحریک لبیک پاکستان کے مطابق بعض پارٹی کارکنان کو حراست میں رکھ کر ان سے زبردستی پریس کانفرنسیں کروائی جا رہی ہیں تاکہ جماعت سے دوری اختیار کرنے کا تاثر دیا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ عمل نہ صرف بنیادی انسانی حقوق بلکہ آزادیِ اظہارِ رائے کے بھی سراسر منافی ہے۔‘ تاہم حکومت ٹی ایل پی اور پی ٹی آئی کے خلاف کارروائیوں کو ان کی ’پرتشدد سیاست کا نتیجہ‘ قرار دیتی ہے۔ وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی جماعت کو سیاست کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔‘ انہوں نے حکومت کی نیت بری نہ ہونے کا ثبوت یہ کہتے ہوئے دیا کہ ’ٹی ایل پی کو کالعدم تو قرار دے دیا گیا لیکن سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیج کر پارٹی کو تحلیل نہیں کروایا گیا۔ بقول رانا ثنا، اسی طرح تحریک انصاف کے 9 مئی 2023 اور 26 نومبر 2024 کے اشتعال انگیز مظاہروں میں ملوث رہنماؤں کے خلاف قانونی کارروائی ہو رہی ہے، لیکن قانون کے دائرے میں رہ کر سیاست کرنے سے اس جماعت کو بھی کسی نے منع نہیں کیا۔‘
دوسری جانب تحریک انصاف کے ترجمان شوکت بسرا نے ان واقعات کو پاکستانی ’سیاسی تاریخ کی حقیقتیں‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی رہنماؤں یا امیدواروں سے پارٹی چھڑوانے کے ’ہتھکنڈے‘ بہت پرانے ہیں۔
’پہلے جماعت اسلامی، پھر پیپلز پارٹی، اسکے بعد دیگر جماعتیں ایسے دور سے گزر چکی ہیں۔ اب پی ٹی آئی اور ٹی ایل پی کے خلاف بھی وہی پرسنے فارمولے آزمائے جا رہے ہیں۔ شوکت بسرا کا کہنا تھا کہ ’سیاسی جماعتیں نظریے کی بنیاد پر بنتی ہیں، جن میں لوگ اپنے خیالات کے مطابق چلتے ہیں۔ جماعتوں کے کارکن یا امیدوار ملازم نہیں ہوتے جو تنخواہ بند کرنے یا نکالنے سے لاتعلق ہو جائیں گے۔ ایسے ظلم وجبر سے کسی بھی جماعت کو نہ تو پہلے ختم کیا جا سکا اور نہ ہی آئندہ ان کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔‘
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ سیاست میں تشدد نہیں، بلکہ بات چیت سے مسائل حل کرنے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ان کارروائیوں کے ذریعے کسی سیاسی جماعت کو سیاست سے روکا نہیں جا سکا۔ البتہ ہر سیاسی لیڈر نے مذاکرات کی میز پر ہی کارروائیوں سے بچنے اور پارٹی کو زندہ رکھنے کے راستے نکالے۔ انکا کہنا تھا کہ جو جماعت ریاست سے خود کو بالاتر سمجھتی ہے اس کے لیے اقتدار تو کیا سیاست کا میدان بھی دستیاب نہیں ہوا۔ لیکن جن لوگوں نے سمجھداری سے مسائل حل کیے، وہ اب بھی سیاست میں نمایاں ہیں۔ بقول سلمان غنی: ’پی ٹی آئی اور ٹی ایل پی قیادت چونکہ ٹکراؤ کی سیاست پر یقین رکھتی ہے تو ان کے لیے ریاست بھی گنجائش نکالنے کو تیار نہیں۔
ایسے میں دیکھنا یہ ہے کہ تحریک لبیک کے مفرور امیر سعد حسین رضوی کب گرفتار ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے؟
