پی ٹی آئی کے گندے انڈے خان کی رہائی کے لیے متحرک کیوں ہوئے؟

تحریکِ انصاف کی جانب سے گندے انڈے قرار دیے جانے والے فواد چوہدری، عمران اسماعیل اور مولوی محمود کی عمران خان کی رہائی کے لیے شروع کی جانے والی کوشش تب دم توڑ گئی جب شاہ محمود قریشی نے انہیں جھنڈی کرواتے ہوئے فارغ کر دیا۔ عمران کو رہا کروانے کا اعلان کرنے والے یہ تینوں لوٹے جب شاہ محمود قریشی کی عیادت کے بہانے ہسپتال پہنچے تو انہوں نے فورا اپنا وکیل بلوا لیا اور فواد اینڈ کمپنی کے ساتھ سیاسی گفتگو سے انکار کر دیا۔

ادھر 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر حملوں کے بعد پارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے والے فواد چوہدری نے دعوی کیا ہے کہ اُن کی شاہ محمود قریشی سے جیل اور ہسپتال میں دو ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ فواد چوہدری کے بقول اُن کا مقصد ملک میں ’بڑھتا ہوا سیاسی درجہ حرارت‘ کم کرنا ہے اور عمران خان سمیت تمام سیاسی اسیروں کی رہائی کو ممکن بنانا ہے۔ اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ شاہ محمود قریشی نے بھی اُن کی کوشش کی بھرپور حمایت کی ہے۔ تاہم شاہ محمود قریشی کے وکیل کا کہنا ہے کہ تین سابق پی ٹی آئی رہنما اچانک ہسپتال پہنچ گئے تھے اور اُن کی صرف چند منٹ کے لیے شاہ محمود قریشی سے ملاقات ہو پائی۔

ادھر وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے فواد چوہدری کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ بات چیت ہونی چاہیئے لیکن جہاں تک کسی اسیر کی رہائی کا تعلق ہے تو یاد رہے کہ ان لوگوں کے کیسز عدالتوں میں چل رہے ہیں اور عدالتی اور قانونی معاملات میں کوئی فرد کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا کیونکہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ تارڑ نے کہا کہ سیاسی درجہ حرارت میں کمی کے لیے بات چیت ہونی چاہیے۔  دوسری جانب تحریکِ انصاف کی قیادت کا کہنا ہے کہ فواد اور عمران اسماعیل جیسے لوٹوں کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ صرف اپنی مردہ سیاست کو زندہ کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ سابق پی ٹی آئی رہنما اچانک اتنے متحرک کیوں ہو رہے ہیں اور انکا اصل ایجنڈا کیا واقعی عمران خان کی رہائی ہے یا کچھ اور؟ فواد چوہدری کا دعویٰ ہے کہ اُن کی شاہ محمود قریشی سے ملاقات 45 منٹ تک جاری رہی جس میں اُنھوں نے بھی عمران خان کی رہائی کے لیے شروع کی جانے والی نئی کوشش کی حمایت کی۔لیکن شاہ محمود قریشی کے وکیل رانا مدثر عمر کا کہنا تھا کہ فواد کا 45 منٹ ملاقات کا دعوی شاہ محمود قریشی کے لیے حیران کن ہے۔ اُن کے بقول شاہ محمود کو پتے میں تکلیف کی وجہ سے ڈیفنس لاہورمیں واقع پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلاٹ انسٹی ٹیوٹ منتقل کیا گیا تھا، جہاں یہ تین لوگ اچانک پہنچ گئے تھے۔

رانا مدثر نے دعویٰ کیا کہ شاہ محمود قریشی نے ’مروتاً ان سے بہت ہی مختصر ملاقات کی۔ اس دوران شاہ محمود کی دو بہنیں بھی وہاں موجود تھیں لہذا سیاسی گفتگو کی گنجائش نہیں تھی۔ رانا مدثر نے فواد چوہدری کے 45 منٹ لمبی ملاقات کے دعوے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں نے چند منٹ قریشی صاحب کی عیادت کی اور پھر وہاں سے چلے گئے۔ اس دوران کوئی سیاسی گفتگو نہیں ہوئی۔

واضح رہے کہ شاہ محمود 9 مئی کے مختلف مقدمات میں بری ہو چکے ہیں تاہم اُنھیں اب بھی مختلف مقدمات کا سامنا ہے جن کا ٹرائل لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں ہی ہو رہا ہے۔ ایک وقت میں عمران خان کے قریب سمجھے جانے والے فواد کہتے ہیں کہ اُن کا مقصد صرف ملک میں سیاسی درجہ حرارت کم کرنا ہے۔ اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ اُن کی عمران اسماعیل اور مولوی محمود کے ہمراہ شاہ محمود قریشی سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ فواد نے دعویٰ کیا کہ سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور سمیت پی ٹی آئی کے متعدد سابق رہنما عمران کو ’رہا کروانے کی اس مہم میں اُن کے ساتھ ہیں۔‘ فواد کا کہنا تھا کہ ملک میں ’تقریباً ڈھائی سال سے ایک گھٹن زدہ ماحول ہے۔ عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے متعدد رہنما قید میں ہیں۔ آئے روز ہم لوگ پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ لوگوں کے کاروبار ٹھپ ہو گئے ہیں۔ اب یہ سب کچھ ختم ہونا چاہیے۔‘

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ شاہ محمود سے ملاقات کے بعد  وہ بہت جلد حکومتی وزرا سمیت مولانا فضل الرحمن اور دیگر سیاسی قائدین سے ملاقاتیں کریں گے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی ایک قدم آگے بڑھے اور حکومت ایک قدم پیچھے ہٹے۔ بات سادہ سی ہے کہ انقلاب تو آ نہیں رہا اور نہ ہی اب کوئی لانگ مارچ ہو سکتا ہے۔ لہٰذا اب بات چیت کے ذریعے ہی خان صاحب کی رہائی کی کوشش کرنا ہو گی۔

فواد چوہدری نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت عمران خان کی رہائی کے لیے سنجیدہ نہیں کیونکہ وہ رہا ہو گئے تو یہ لوگ فارغ ہو جائیں۔ عمران کی رہائی سے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا بریگیڈ سے وابستہ یوٹیوبرز فارغ ہو جائیں گے اور ان کی کمائی بند ہو جائے گی۔

شاہ محمود قریشی سے ملاقات کے لیے جانے والے ایک دوسرے سابق پی ٹی آئی رہنما عمران اسماعیل نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا۔ انھوں نے ایکس پر پیغام میں کہا کہ ’شاہ محمود قریشی کئی دنوں سے ہسپتال میں علیل ہیں۔ ان سے ملنے ان کے حلقے کے لوگ اور فیملی جاتی ہے۔ اگر تحریک انصاف کی قیادت ان کا پتا کرنے بھی نہیں جا سکتی تو کیا ہم بھی ان کی عیادت کرنے نہ جائیں؟ عمران اسماعیل نے کہا کہ ’ہم نے صرف شاہ محمود سے ہی نہیں بلکہ کوٹ لکھپت جیل میں پارٹی کارکنوں اور لیڈرشپ سے بھی ملاقات کی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ہم صرف خان کی رہائی چاہتے ہیں لیکن انکے آس پاس موجود لوگ اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے مابین تلخیاں بڑھا رہے ہیں تاکہ عمران خان اندر ہی رہیں اور ان کی دکان چلتی رہے۔

یاد رہے کہ سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل نے بھی 9 مئی کے واقعات کے بعد تحریک انصاف چھوڑ دی تھی جس کا اعلان انھوں نے ایک پریس کانفرنس میں کیا تھا۔ انھوں نے کور کمانڈر ہاؤس لاہور سمیت دیگر عسکری تنصیبات پر حملوں کی مذمت کی تھی۔ یہی عمل سابق رکن قومی اسمبلی مولوی محمود نے بھی دہرایا تھا ۔ لیکن اس معاملے پر پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر اور سکریٹری جنرل سلمان اکرم کی جانب سے تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ تاہم پارٹی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے بھی فواد چوہری کی ملاقات کے بعد شاہ محمود سے ملاقات کی ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ کیا کھچڑی پک رہی ہے۔

ادھر پارٹی سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری، عمران اسماعیل اور مولوی محمود کا تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں، ویسے بھی گندے انڈوں کا آملیٹ کوئی نہیں کھاتا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ان افراد نے ’گذشتہ ڈیڑھ سال میں کئی بار خود کو اہم ثابت کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ اڈیالہ جیل کے باہر بھی سیاسی بیانیہ بیچنے کی کوشش کی گئی مگر انھیں کوئی پذیرائی نہیں ملی۔‘

دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنما اسد عمر نے عمران خان کی نئی رہائی مہم سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کی رہائی کے لیے وہ ’کسی بھی کاوش کی حمایت کرتے ہیں‘ لیکن وہ اس مہم کا حصہ نہیں۔ تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے عمران کی رہائی مہم شروع کی ہے، انھوں نے ’مشکل وقت میں پی ٹی آئی کو چھوڑا تھا لہذا وہ نہیں سمجھتے کہ اس مہم کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔

اُن کا کہنا تھا کہ جہاں تک جیل میں قید پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی بات ہے ’وہ تو پہلے سے ہی مفاہمت کی بات کرتے رہے ہیں۔‘

واضح رہے کہ رواں برس جولائی میں پاکستان تحریک انصاف کے جیل میں قید رہنماؤں شاہ محمود قریشی، اعجاز چوہدری، ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید اور عمر سرفراز چیمہ کا کوٹ لکھپت جیل سے عمران خان کے نام لکھا گیا ایک خط منظر عام پر آیا تھا۔ یہ خط تحریک انصاف کے آفیشل ایکس اکاونٹ سے بھی شیئر کیا گیا جس میں ان تمام اسیر رہنماوں نے مذاکرات پر زور دیا تھا۔ لیکن عمران خان نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے احتجاج کے آپشن کو استعمال کرنے کی بات کی تھی۔

Back to top button