فوجی عدالتوں نے مذاکرات شروع ہوتے ہی سزائیں کیوں سنانا شروع کر دیں؟

بظاہر فوجی ترجمان کی حالیہ پریس کانفرنس میں حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذاکرات کو مثبت پیشرفت قرار دیا گیا ہے لیکن مذاکرات شروع ہونے سے فوری پہلے اور بعد میں فوجی عدالتوں کی جانب سے پی ٹی آئی کے شرپسندوں کو لمبی قید کی سنائے جانے سے مذاکراتی عمل کی کامیابی پر سوالیہ نشان کھڑے یو گے ہیں۔
معروف صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی اپنی تازہ تحریر میں کہتے ہیں کہ فوج کے ترجمان کی طرف سے کی جانے والی پریس کانفرنس میں ایک بار پھر تحریک انصاف اور عمران خان کا نام لیے بغیر اُن کی ’’انتشاری‘‘ طرز سیاست کو سختی سے رد کیا گیا لیکن اس کیساتھ ساتھ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان شروع ہونے والے مذاکرات کو مثبت اقدام کے طور پر لیا گیا۔ بہت سے سننے والوں کیلئے یہ پریس کانفرنس تحریک انصاف کیلئےسخت تھی اور فوج کی اُسی سوچ کی عکاسی کرتی تھی جو پہلے سے تحریک انصاف اور عمران خان کے حوالے سے پائی جاتی ہے۔
لیکن ابصار عبادی کہتے ہیں کہ ان کی ذاتی رائے میں اگر فوج کے ترجمان کے اس بیان کا موازنہ اُن کے مئی میں دیے جانے والے بیان سے کیا جائے تو اسٹیبلشمنٹ کی تحریک انصاف سے متعلق پالیسی میں کچھ نرمی نظر آتی ہے۔ اپنے ماضی کے بیان میں فوج کے ترجمان نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ فوج کیلئے تمام سیاسی جماعتیں قابل احترام ہیں لیکن اگر کوئی سیاسی جماعت اپنی ہی فوج پر حملہ کرتی ہے تو اُس سے کون بات کرے گا؟ اُنہوں نے کہا تھا کہ 9 مئی 2023 کے روز ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملے کرنے اور کروانے والوں کو سزا دینی پڑے گی، لہازا انتشاری ٹولے سے کوئی بات چیت نہیں ہو گی، سیاسی انتشاری ٹولےکے پاس صرف ایک ہی رستہ ہے کہ وہ صدق دل سے اپنے کیے پر معافی مانگے، نفرت وہ انتشارکی سیاست چھوڑنے کا وعدہ کرے۔ فوجی ترجمان نے یہ بھی کہا تھا کہ بات چیت فوج سے نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے درمیان ہی ہو گی۔
اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں فوج کے ترجمان نے تحریک انصاف کی انتشاری سیاست پر بات کی، 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ سازوں کو سزا دینے کے متعلق بھی فوج کابیان دہرایا لیکن اب کی بار اُنہوں نے تحریک انصاف کے حوالے سے 9 مئی سے متعلق صدق دل سے معافی مانگنے والی شرط پر کوئی بات نہ کی۔ حکومت اور تحریک انصاف کے مذاکرات کے حوالے سے فوج کے ترجمان نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات خوش آئند عمل ہے۔گویا تحریک انصاف کو اپنے لیے سیاسی سپیس اگر حاصل کرنا ہے تو منفی سیاست کو چھوڑ کر وہ بہتری کی توقع کر سکتی ہے۔ ویسے بھی منفی سیاست اور انتشاری سیاست سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان اور تحریک انصاف کا اپنا ہی ہو رہا ہے۔
انصار عباسی یے بقول اب جب مذاکرات شروع ہوچکے ہیں تو سول نافرمانی کی تحریک کو چلانے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر ایسی تحریک کامیاب بھی ہوتی ہے تو نقصان تو پاکستان کا ہو گا۔ دوسری جانب حال حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سال 2024 میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھجوائے گئے ترسیلات زر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب عمران خان اپنی سول نافرمانی تحریک کے ذریعے عوام بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے یہ اپیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ وہ ترسیلات زر پاکستان بھجوانے سے پرہیز کریں۔
انصار عباسی کے مطابق عمران خان اور تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ پورا پاکستان اُن کے ساتھ ہے، لیکن اگر ایسا ہی ہے تو پھر ایسی سیاست کیوں کی جاتی ہے جس کا نقصان پاکستان کو ہی ہو۔ ایسی سیاست کیوں کی جاتی ہے کہ پاکستان کی معیشت کمزور ہو، آئی ایم ایف کا قرضہ پاکستان کو نہ ملے، ملک ڈیفالٹ کی طرف چلا جائے۔ کتنا اچھا ہو کہ عمران خان امریکا کی پاکستان کے میزائل پروگرام پر پابندی کے خلاف آواز اُٹھائیں،اس بیان کی نہ صرف خود مذمت کریں بلکہ اپنی جماعت سے کہیں کہ اس بیان پر باقاعدہ احتجاج کیا جائے۔اس کے علاوہ آئے روز دہشت گردی میں شہید ہونے والے فوجی اور دوسرے اہلکاروں کی قربانیوں کو خود خان خراج تحسین پیش کریں اور اپنے رہنمائوں سے کہیں کہ ان شہیدوں کے خاندانوں کے افراد کے پاس جائیں اور اُنہیں عمران خان کی طرف سے تسلی دیں۔
انصار عباسی کہتے ہیں کہ سول نافرمانی کی تحریک چلانے کی بجائے عمران خان کو چاہیئے کہ وہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں سے اپیل کریں کہ وہ اپنی ترسیلات زر کو روکنے کی بجائے پاکستان بڑے ہیمانے پر ڈالرز بھیجیں تاکہ ملک خوشحال ہو، انہیں یہ بھی چاہیئے کہ وہ امریکا سمیت بیرون ملک سے پاکستان کے اندرونی معاملات پر مداخلت کرنے والوں کی مذمت کریں، چاہے اس مداخلت کا فائدہ عمران خان کو ہی کیوں نہ ہوتا ہو۔ ایسا کر کے عمران خان خود کو پاکستان کا ایک بڑا لیڈر بنا سکتے ہیں۔