پاک بھارت جنگ پاک سعودی دفاعی معاہدے کی وجہ کیوں بنی؟

 

 

 

پاکستان اور سعودی عرب کے مابین ہونے والے تاریخی دفاعی معاہدے کے پیچھے اصل وجہ حالیہ پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی واضح کامیابی ہے۔ اس جنگ میں شکست کھانے کے بعد بھارت کے ستارے گردش میں ہیں اور پاکستان کا ستارہ عروج پر ہے۔ اس جنگ کے بعد اسرائیل کی قطر پر بمباری وہ واقعہ تھا جس نے سعودی عرب کو فوری طور پر پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرنے پر مجبور کیا۔ وجہ یہ ہے کہ اب سعودی عرب سمیت خلیجی ریاستوں کو امریکہ پر بھروسہ نہیں رہا جو پہلے ان کے دفاع کا ضامن تھا۔ سب جانتے ہیں کہ اسرائیل امریکہ کے لیے کرائے کے غنڈے کا کردار ادا کرتا ہے لہذا قطر پر اسرائیلی حملے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا امریکہ کی مرضی سے کیا گیا۔ لہذا اب ایک بار پھر دے دنیا کی نظریں پاکستان پر مرکوز ہو چکی ہیں اور مسلم امہ کی قیادت ہماری منتظر ہے۔

 

معروف لکھاری عمار مسعود اپنے تازہ تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کو اس سے پہلے ترقی کے مواقع نہیں ملے۔ ایسا بھی نہیں کہ اس سے پہلے ہمیں روشنی کی کرن نظر نہ آئی ہو۔ ایسا بھی نہیں ہوا کہ ہمیں امت مسلمہ میں ممتاز مقام ملنے کا پہلے موقع نہیں ملا۔ یہ سب بارہا ہوا۔ لیکن ہم نے یہ مواقع گنوا دیے۔ وجہ یہ ہے کہ فیصلہ سازوں نے ملک کے مفاد سے زیادہ ذاتی مفاد کو ترجیح دی اور وہ تمام مواقع گنوا دیے۔

 

عمار مسعود کہتے ہیں کہ وقت بہت بیت گیا مگر ماضی کی راکھ کبھی کبھی کریدنی چاہیے تاکہ دھواں تو اٹھے، تاکہ چنگاری تو بھڑکے، اپنی غلطیوں پر ماتم تو ہو۔ اپنے اعمال کا احوال تو بیان ہو۔ یاد رکھیں وقت گزرنے سے تاریخ دفن نہیں ہوتی بلکہ اس کے لگائے زخم گہرے ہو جاتے ہیں۔ اس کا سبق زیادہ واضح ہو جاتا ہے۔ ماضی کی غلطیاں زیادہ فاش نظر آنے لگتی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے پاکستان میں پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کروائی تھی جس سے دو لخت ہونے والے پاکستان کا تشخص بحال ہوا۔ سعودی رہنما شاہ فیصل شہید نے پاکستان کے ساتھ مشترکہ میزبانی کو قبول فرمایا۔ مسلم ممالک کا ایک فعال بلاک بننے کی بات ہوئی۔ غربت کے اندھیرے چاک کرنے کا اعلامیہ آیا۔ ایک دوسرے کے بازو بننے کا حوصلہ ملا۔

 

عمار مسعود کہتے ہیں کیا یہ ذوالفقار علی بھٹو کا وہ کارنامہ تھا جس سے امریکا اور یورپ خوفزدہ ہو گئے تھے۔ پھر قسمت کا پھیر الٹا چلا۔ شاہ فیصل کو شہید کر دیا گیا۔ بھٹو پھانسی پر جھول گئے۔ ہماری جھولی میں اندھیرے تھے وہ اندھیرے ہی رہ گئے۔ اس کے بعد ایک موقع آیا، افغان جہاد کا۔ جہاں دو سپر طاقتوں کی جنگ تھی۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے تھے کہ کسی ایک فریق کو شکست ہونا تھی۔  روس گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتا تھا۔ درمیان میں افغانستان اور پاکستان حائل تھے۔ ضیاالحق کا دورتھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب امریکہ کو ہماری ضرورت پڑ گئی۔ ضیاء الحق کو بھی اپنا اقتدار لمبا کھینچنے کے لیے ایک اچھا موقع مل گیا۔ چنانچہ افغانستان سے روسی افواج کو شکست دیکر نکالنے کے لیے مجاہدین تخلیق کیے گئے۔ لیکن صرف روس کو شکست دینا ہماری منزل نہیں تھی۔ ہم نے اپنے ملک کو بھی ترقی دینا تھی۔ یہاں ڈیم بننے تھے۔ یہاں یونیورسٹیاں اور سکول کھلنے تھے، سڑکیں تعمیر ہونا تھیں۔ ترقی ہونی تھی۔ لیکن ہم روس کے جنگ ساتھ امریکی جنگ لڑنے میں اس قدر غرق ہوئے کہ پاکستان کی حالت سنوارنا بھول گئے۔

 

عمار مسعود کہتے ہیں کہ ہم نے روس کو برباد کر دیا لیکن برباد ہم خود بھی ہو گئے۔ اس جنگ سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ہمارے حصے میں صرف ایسا نقصان آیا جو اب بھی ہم بھر رہے ہیں۔ 1998 میں ہم  نے ایٹمی تجربات کیے۔ بھارت کو ناکوں چنے چبو ادیے۔ اس سے پہلے بھارت نے پانچ ایٹمی دھماکے کیے۔ دنیا بھر میں ہنگامہ مچ گیا۔ لوگ کہنے لگے کہ اس خطے کا چوہدری ایک ہی ہے۔ بھارت منی سپر پاور ہے۔ لیکن اس منی سپر پاور کا چند دنوں میں ہی بھرکس نکل گیا جب پاکستان نے چھ ایٹمی دھماکے کیے۔ اس واقعے کی دھاک لمحوں میں پوری دنیا میں پھیل گئی۔ بھارت کی برتری دنوں میں خاک میں مل گئی۔ دنیا اس واقعے پر بھی ہماری طرف بہت چاہ سے دیکھ رہی تھی۔ اس کے بعد ترقی کا سفر شروع ہونا تھا مگر ہم نے اس موقع کو بھی ضائع کر دیا۔ مشرف کی فوجی بغاوت کے بعد ایٹمی دھماکے کرنے والے نواز شریف کو قید کر دیا گیا جس سے پاکستان اندرونی خلفشار کا شکار ہو گئا۔ دنیا جو ہم پر فخر کر رہی تھی وہ ہم پر ہنسنے لگی۔ ہم جو تماشا کر رہے تھے خود تماشا بن گئے۔

 

عمار مسعود کے مطابق اس کے بعد نائن الیون کا سانحہ رونما ہو گیا اور امریکہ کو دوبارہ سے ہماری ضرورت پڑ گئی۔ امریکہ نے روس کیخلاف لڑنے کے لیے پاکستان سے مل کر افغانستان میں جو مجاہدین تیار کیے تھے وہ اب طالبان بن چکے تھے چنانچہ دہشت گرد قرار پائے۔ نائن الیون کے بعد دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو دہشتگردی کے خوف سے نجات دلانے کے لیے دوبارہ پاکستان کا انتخاب کیا گیا۔ یوں آئین شکن جنرل مشرف کو بھی 10 برس تک پاکستان پر حکمرانی کا موقع مل گیا۔ ہم القاعدہ اور طالبان کے خلاف امریکی جنگ میں امریکا سے ملکی ترقی کے لیے بہت کچھ لے سکتے تھے مگر مشرف نے ایسا کرنے کی بجائے صرف نوکری کی، ہم نے امریکہ کے سارے کام کر دیے مگر اپنی باتیں ان سے منوانا بھول گئے۔ نائن الیون کے بعد واشنگٹن سے آنے والی ایک کال پر مشرف ایسا ڈھیر ہوا کہ دوبارہ اٹھ نہ سکا۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہی نہیں رہا کہ تاریخ ایسے مواقع بار بار نہیں دیتی۔

 

عمار مسعود کہتے ہیں کہ پاک سعودی دفاعی معاہدہ عہد ساز ہے جسکی بنیادی وجہ حالیہ پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی کامیابی ہے۔ اس جنگ میں پاکستان کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد سے بھارت کے ستارے گردش میں ہیں اور پاکستان کا ستارہ عروج پر ہے۔ ایک بار پھر سے دنیا کی نظریں پاکستان پر مرکوز ہو چکی ہیں۔ اب ایک بار پھر مسلم امہ کی قیادت ہماری منتظر ہے۔ اب ایک بار پھر ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ اپنی بات منوا سکیں۔ اس موقع کو پہلے مواقع کی طرح ضائع کیا تو کف افسوس ملنے کے سوا ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ ہمیں مسلم امہ کی خدمت بھی کرنی ہے، دنیا میں بھی باوقار نام بنانا ہے۔ لیکن اس کےساتھ اس ارض پاک کو بھی ترقی دینی ہے۔ یہاں سے افلاس ، بے روزگاری اور جہالت کو ختم کرنا ہے۔ اب ترقی کےسوا ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔

 

عمار مسعود کہتے ہیں کہ اس وقت ہم سے نہ صرف ایٹمی قوت کے طور پر توقعات لگائی جا رہی ہیں بلکہ اس کے بدلے ہم سے حرم پاک کی حفاظت کی سعادت بھی عطا کی جا رہی ہے۔ ہمیں اس زمیں کی حفاظت کا ذمہ بھی مل رہا ہے اور مسلم امہ کی پاسبانی بھی تفویض کی جا رہی ہے۔ عمار کہتے ہیں کہ یوتھیوں کی جانب سے جس فوج کو نفرت سے چوکیدار کہہ کر پکارا جاتا تھا اسے حرمین شریفین کی پاسبانی کا فرض سونپ دیا گیا۔ اب یہ الزام نہیں اعزاز ہے۔ تضحیک نہیں، توقیر ہے۔ ہتک نہیں، سعادت ہے۔ اس سے بڑھ کر سعادت دنیا میں کوئی اور نہیں ہوسکتی اور اس سے  بڑھ کر عظیم حفاظت کوئی اور نہیں۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!