ضرورت پڑنے پرعالمی رہنماؤں نے ملالہ کے فون کیوں نہیں سنے؟

دنیا کی کم عمر ترین نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے اپنی سوانح عمری میں انکشاف کیا ہے کہ افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر عائد پابندی کے حوالے سے انھوں نے امریکی صدر بائیڈن، برطانوی وزیراعظم بورس جانسن، فرانسیسی صدر میکرون اور کینیڈا کے صدر جسٹس ٹروڈو کو باربار میلز بھیجیں، فون کیے لیکن کسی نے ان کی کالز یا ای میلز کا جواب نہیں دیا حالانکہ وہ برسوں سے ان عالمی رہنماؤں کے ساتھ تصاویر کھنچواتی رہی، ہاتھ ملاتی رہی ہیں مگر جب ضرورت تھی تو کسی نے فون نہیں اٹھایا، ای میلز کا جواب تک نہیں دیا۔ ملالہ کو افسوس ہے کہ افغانستان آج بھی دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بچیوں کی تعلیم پر پابندی ہے۔
دنیا کی کم عمر ترین نوبیل انعام یافتہ، انسانی حقوق کی علمبردار، اور بچیوں کی تعلیم کی عالمی سفیر ملالہ یوسفزئی کی نئی کتاب نے منظرِ عام پر آنے سے پہلے ہی سیاسی، سماجی اور نفسیاتی حلقوں میں تہلکہ مچا دیا ہے کیونکہ اس کتاب میں ملالہ نے اپنی ذاتی زندگی کے ان پہلوؤں کو بےباکی سے بیان کیا ہے، جو آج تک سب سے مخفی تھے۔ ملالہ یوسفزئی کی کتاب صرف ایک مشہور شخصیت کی سوانح نہیں، بلکہ ایک نوجوان لڑکی کے اندرونی کرب، نفسیاتی زخم، عالمی شہرت کے دباؤ، اور نجی خوشیوں کی کہانی ہے۔ایسی کہانی جو لاکھوں دلوں کو چھو رہی ہے اور کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔
کتاب کا سب سے دل دہلا دینے والا حصہ وہ واقعہ ہے جس میں ملالہ کو نیم بے ہوشی کے عالم میں برسوں پہلے طالبان کی گولی لگنے کا لمحہ پوری تفصیل سے یاد آ گیا۔ ایک ایسا واقعہ جسے اُس نے طویل عرصے سے ذہن کے کسی تاریک گوشے میں دفن کر رکھا تھا۔ اس حوالے سے ملالہ یوسفزئی لکھتی ہیں: "میں نے ہمیشہ سوچا کہ میں وہ دن بھول چکی ہوں، لیکن اُس لمحے میں نے سب دوبارہ جیا۔ لگا جیسے میں مر چکی ہوں یا مر رہی ہوں۔”یہ یاد اچانک ایک دن اس وقت ابھری جب وہ آکسفورڈ میں ایک مشکل اسائنمنٹ کر رہی تھیں۔ دماغی تناؤ اور الجھن کی حالت میں، اچانک بچپن کے وہ ہولناک مناظر سامنے آ گئے: گولی کی آواز، خون کے چھینٹے، ایمرجنسی، اور گلے میں ڈالی گئی ٹیوب۔یہ ایک نفسیاتی "ٹرگر” تھا جس نے ثابت کیا کہ شہرت، ایوارڈز اور بیرونی کامیابی کے باوجود اندر کی تکلیفیں اب بھی زندہ تھیں۔
ملالہ کی کتاب کا ایک باب آکسفورڈ یونیورسٹی میں گزارے دنوں پر مشتمل ہے، جہاں ملالہ نے اکنامکس، فلسفہ اور سیاسیات کے مضامین میں گریجویشن کی۔ اس حوالے سے ملالہ لکھتی ہیں کہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں انہوں نے لو پروفائل رہنے کی کوشش کی کیونکہ وہاں میری زبان سے نکلا ہر لفظ ایک کوٹیشن بن جاتا تھا، اس لیے ہر جملے سے پہلے دو بار سوچنا پڑتا۔ ملالہ نے آکسفورڈ کے دنوں میں عام طالبعلم بننے کی کوشش کی، لیکن سلیبریٹی ہونا ان کیلئے ایک مسلسل دباؤ بن گیا۔ وہ لکھتی ہیں کہ دوستوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے انہیں کبھی مسئلہ نہیں ہوا، دوستوں کے سامنے وہ بک بک کر سکتی تھی، کچھ غلط ، غیر منطقی بولنا، مذاق ، دوستانہ جملے بازی وغیرہ وغیرہ لیکن عوامی سطح پر بولتے وقت وہ خود پر پابندیاں محسوس کرتی تھیں۔
کتاب کا ایک اہم حصہ افغانستان پر طالبان کے دوبارہ قبضے سے متعلق ہے۔ کتاب کے اقتباسات کے مطابق ملالہ اس وقت شدید مایوسی اور بے بسی کا شکار ہوئیں جب لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا دی گئی۔ ملالہ کہتی ہیں: "عالمی رہنماؤں نے افغان خواتین کو بھلا دیا، اور طالبان پر اعتماد کیا۔”انہوں نے امریکی صدر بائیڈن، برطانوی وزیراعظم بورس جانسن، فرانسیسی صدر میکرون اور کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کو بار بار ای میلز اور فون کیے، لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔ملالہ کا دکھ صرف یہ نہیں کہ کسی نے ان کی بات نہ سنی، بلکہ یہ کہ وہ انہی رہنماؤں کے ساتھ ہاتھ ملا چکی تھیں، تصویریں کھنچوا چکی تھیں لیکن جب وقتِ ضرورت آیا، وہ تنہا رہ گئیں۔
KPK کابینہ کی تشکیل، آفریدی کے کپتان سے اختلافات شروع
کتاب کا سب سے خوبصورت اور دل کو چھو لینے والا حصہ ان کے شوہر عصر ملک کے بارے میں ہے۔ ملالہ نے آکسفورڈ کے دنوں میں لاہور سے آئے ایک ہینڈسم نوجوان سے ملاقات کی جو بعد میں ان کا جیون ساتھی بنا۔ آکسفورڈ میں اپنی تیسری ٹرم میں ملالہ کی عصر ملک سے ملاقات ہوئی جو لاہور سے آکسفورڈ کسی عزیزہ سے ملنے آئے۔ دراز قد لاہوری عصر ملک اور ملالہ دونوں فوراً ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوگئے۔ ملالہ کی اس حوالے سے یادیں بہت خوبصورت، معصومانہ اور پیور قسم کی ہیں۔ وہ اپنی تمام ترخوداعتمادی، ایکسپوژر اور عالمی شہرت یافتہ ہونے کے باوجود اس حوالے سے ایک سادہ معصوم مشرقی لڑکی نظر آئی۔جسے اپنی پشتون روایات کا خیال ہے، جو ایک پڑھے لکھے ہینڈسم لڑکے کو پسند کرنے کے باوجود شادی کے لیے اپنے والدین کی رضامندی چاہتی ہے۔ لڑکے کو صاف کہہ دیتی ہے کہ پہلے میرے والدین کو منانا پڑے گا۔
اس حوالے سے ملالہ یوسفزئی لکھتی ہیں کہ میرے لئے عصر ملک کو پسند کرنے کے باوجود اپنے والدین کی رضامندی ضروری تھی۔ اس لئے میں نے عصر کو صاف کہہ دیا تھا کہ پہلے میرے والدین کو منانا پڑے گا۔” ملالہ یوسفزئی اس حوالے سے پہلا قدم اٹھاتے ہوئے اپنے شفیق اور دوست نما والد سے ایک غیر ملکی سفر پر یہ سیکرٹ شیئر کرتی ہے، اس شرط کے ساتھ کہ ماں کو نہ بتائیں۔ ان کے والد ضیا الدین یوسف زئی نے بورا قصہ توجہ اور غور سے سنا، مگر ملالہ اس وقت ہکی بکی رہ گئی جب ان کے والد نے فوراً اپنی بیگم کو فون کر کے پوری بات بتا دی جنہوں نے فون پر ہی چیخ کر کہا کہ اگر اس لڑکے کو پشتو بولنا نہیں آتی تو ملالہ اس کے ساتھ شادی نہیں کر سکتی۔ ملالہ نے اپنے والدین کے احترام کو ملحوظ رکھا اور پشتو کلچرل کوڈ ’نو لُک، نو ٹچ، نو ڈیٹ‘کو فالو کرنے کی کوشش کی۔عصر ملک نے ملالہ کے کہنے پر اپنے رشتے کو مخفی رکھا، میڈیا میں کسی کو ہوا تک نہیں لگنے دی۔ اس نے آکسفورڈ سے ملالہ کی گریجویشن مکمل ہونے کا انتظار کیا اور پھر تین سال کے محبت بھرے تعلق کے بعد 2021 میں دونوں کی شادی ہوئی۔
ملالہ نے خوشی سے بتایا کہ پچھلے چار برس اس کے لیے ایک متواتر اور طویل ہنی مون جیسے ہیں۔ملالہ کے نزدیک اس کی زندگی کا بہترین ویلنٹائن اس کے سپورٹس لور خاوند کے ساتھ 14 فروری کو ایک رگبی میچ دیکھنا ہے۔ ملالہ کے بقول انھوں نے یہ کتاب اپنے والدین کو ابھی تک نہیں پڑھائی۔ انہیں کہا ہے کہ کتاب شائع ہو جائے پھر آپ اسے پڑھنا، چونکہ تب اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔
ملالہ کی نئی کتاب صرف ایک مشہور شخصیت کی آپ بیتی نہیں، بلکہ ایک "اندر کا سچ” ہے۔ملالہ کی سوانح عمری شہرت کے دباؤ، ذہنی صحت کے مسائل، عالمی مایوسی، ذاتی خوشی، تنقید، وفاداری، اور انسانی ہمدردی کے درمیان جھولتی ایک زندگی کی داستان ہے۔ یہ کتاب تہلکہ اس لیے مچا رہی ہے کہ یہ کتاب حقیقت میں ملالہ کی زبان میں خود ملالہ کا سب سے سچا اعتراف ہے۔
