جنرل عاصم  کے مخالف عمران خان کو ان سے ڈیل کی امید کیوں ہے؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کہا ہے کہ سیالکوٹ کے ضمنی الیکشن میں نواز لیگ کے ہاتھوں تحریک انصاف کے امیدوار کی ایک بڑے مارجن سے شکست نے واضح کر دیا ہے کہ پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ ختم ہو چکا ہے، اس کی قیادت اور ورکرز کی مایوسی روز بروز بڑھ رہی ہے اور احتجاجی تحریک میں شرکت کارکنوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن چکی یے۔ انکا کہنا ہے کہ دوسری جانب عمران خان آرمی چیف کے خلاف مسلسل اپنا بیانیہ آگے بھی بڑھا رہے ہیں اور ان سے ڈیل کی امید بھی رکھتے ہیں جس کی تک سمجھ نہیں آتی۔

بی بی سی اردو کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ عمران خان حالیہ جنگ میں پاکستان کے ہاتھوں بھارت کی شکست کے بعد یا تو سیاسی صورت حال درست پڑھ نہیں پا رہے یا پھر مایوسی میں مسلسل غلط فیصلے کرنے پر مجبور ہیں۔ انکا کہنا یے کہ پاک انڈیا جنگ کے بادل فی الحال چھٹ چکے ہیں مگر پاکستان کی اصل جنگ اب بھی برقرار ہے۔ پاکستان کو کامیابی ملکی سرحدوں کے محاذ پر حاصل ہوئی ہے، فضاؤں نے فتح کا جشن منایا ہے مگر اصل جنگ اب بھی لڑی جار ہی ہے اور لڑی جانی ہے۔

یہ لڑائی دراصل اندرونی لڑائی ہے جس میں دشمن گھات لگا کر بیٹھا ہے، اس لڑائی میں معاشرے میں جگہ جگہ بارودی سرنگیں لگائی گئی ہیں جن کا خاتمہ صرف تب ہی ممکن ہے جب امن کے دنوں میں جنگ کے لیے خود کو تیار کیا جائے۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ سیاست کے سب انداز بدل چُکے ہیں، تبدیلیاں اس قدر تیزی سے ہو رہی ہیں کہ شاید گھڑی کو بھی احساسِ رفتار نہیں۔ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نہ تو حالات نارمل ہیں اور نہ ہی واقعات۔ انڈیا کی جانب سے طاری جنگ ٹلی نہیں، سفارتی، میڈیائی اور سرحدی محاذ پر جاری جنگ مقبولیت اور معقولیت کے سب تقاضے سمیٹے بیٹھی ہے۔ ایسے میں ریاست کے سب ستون ایک صفحے پر ہیں اور سیاسی اور عسکری قیادت یک جان دو قالب جبکہ تصوراتی اور تعزیراتی بیانیے یکساں نظر آتے ہیں۔

ایسے میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ عمران خان کی تحریک انصاف کہاں کھڑی ہے؟ عمران خان نے ایک بار پھر فوج کی جانب مشروط مذاکرات کا ہاتھ بڑھایا مگر ساتھ ہی احتجاجی سیاست کااعلان بھی کر دیا جو ان کا پرانا طریقہ واردات ہے۔ سچ تو یہی ہے کہ وہ طاقتور فیصلہ سازوں کے ساتھ ڈیل کر کے جیل کی چار دیواری سے باہر نکلنا چاہتے ہیں لیکن مسئلہ انکے ووٹرز ہیں جن کے سامنے وہ ایک بہادر لیڈر ہونے کا ڈھونگ رچانا چاہتے ہیں۔ لہذا وہ ایک جانب مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو دوسری جانب احتجاج کی دھمکی بھی دے ڈالتے ہیں، چنانچہ پی ٹی آئی اب وہ گدھا گاڑی بن چکی ہے جو گدھے سمیت ہوا میں معلق ہے۔

عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ عمران اپنی رہائی کی کوششوں میں فیصلہ سازی سے محروم نظر آتے ہیں جبکہ قیادت کسی ایک کے ہاتھ بھی دینے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ تنظیمی بنیادوں پر ڈھانچہ ختم ہو چکا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سیالکوٹ میں ہونے والے ضمنی انتخاب کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج میں بھی تحریک انصاف مقبولیت کے معیار پر پورا اترتی دکھائی نہیں دی۔ تحریک انصاف کے کیمپس میں مایوسی روز بروز بڑھ رہی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ کہیں عملی طور پر ممکنہ احتجاجی تحریک میں شرکت کارکنوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب نہ بن جائے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عمران سیاسی قوتوں سے بات چیت نہیں کرنا چاہتے جبکہ فوج کسی طور اُن سے گفتگو کے لیے رضامند نہیں، عمران خان شکست ماننے کو تیار نہیں جبکہ فوج جیت کے مراحل سے بھی آگے نکل چکی ہے، عمران اپنی شرائط پر گفتگو چاہتے ہیں جبکہ فوج اب شرائط پر بھی رضامند دکھائی نہیں دیتی، عمران سیاست کو آزمانا نہیں چاہتے جبکہ یہ صورتحال موجودہ سیاسی بندوبست کے لیے نہایت موزوں ہے۔

عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ پاک بھارت جنگ کے دوران عمران خان کے لیے ایک سنہری موقع تھا کہ وہ اپنا بیانیہ بدلتے اور قومی دھارے میں واپس آ جاتے لیکن انہوں نے یہ موقع بھی گنوا دیا اور افواج پاکستان کے دشمنوں کا ساتھ دینے کی بھیانک غلطی کر ڈالی۔ عمران خان 10 مئی کے بعد کے حالات میں یا تو صورت حال درست پڑھ نہیں پا رہے یا مایوسی میں غلط فیصلوں پر مجبور ہیں۔ بہر حال یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ جنرل عاصم منیر کے خلاف بھی ہوں اور اُن سے گفتگو کے متمنی بھی۔ عمران کی ’ فوجی قیادت‘ سے وابستہ لامحدود خواہشیں یوں بھی دم توڑ رہی ہیں کہ نو مئی کے ملزمان کو سزائیں دینے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ حال ہی میں ایک رکن قومی اسمبلی کو دی جانے والی سزا اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کے خلاف نااہلی ریفرنس نے جماعت پر خوف کے سائے بڑھا دیئےہیں۔

سینیئر اینکر پرسن کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے کئی قائدین نو مئی کے ممکنہ فیصلوں کے نتیجے میں 50 کے قریب اراکین اسمبلی کی نااہلی کی پیش گوئی کر رہے ہیں جبکہ اس صورت حال میں عمران خان پارٹی اراکین کو اسمبلیوں سے استعفے کا کہہ سکتے ہیں۔ ایسے میں جب تحریک انصاف کے پاس آپشنز محدود سے محدود تر ہوتی چلی جا رہی ہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا احتجاجی سیاست آخری حل ہے؟ کیا استعفوں یا نااہلی کی صورت تحریک انصاف دوبارہ انتخابی اور پارلیمانی سیاست میں آ پائے گی؟ پی ٹی آئی  کو ’پریشر گروپ‘ سے زیادہ سیاسی جماعت کے طور کام کرنا ہو گا، بقول علی امین گنڈا پور ان کی جماعت کو ’9 مئی کی غلطی‘ پر معافی مانگ کر آگے بڑھنا ہے مگر اس معافی کی تلافی ہو گی یا نہیں اس بارے تحریک انصاف غیر یقینی کی صورت حال میں ہے۔

عاصمہ کا کہنا ہے کہ سیاسی سیز فائر کے لیے کوششیں جاری رہنا چاہییں تاہم ایک طرف مذاکرات کی خواہش اور دوسری جانب ناکامی کی صورت عسکری قیادت کی کردار کشی کی مہم پی ٹی آئی کو کوئی فائدہ دے پائے گی؟سیاست ناممکنات سے ممکن بنانے کے فن کا نام ہے اور یہ فن محترمہ بے نظیر بھٹو سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا۔ پی ٹی آئی آگے بڑھے ریاست خود ایک قدم پیچھے ہٹ جائے گی مگر اس کے لیے سیاست کو ہی آزمانا ہو گا۔۔ ہو سکتا ہے سیاسی سیز فائر کی بھی کوئی گنجائش نکل آئے۔۔

Back to top button