فوجی اسٹیبلشمنٹ ملک میں نئے صوبے کیوں بنانا چاہتی ہے؟

فوجی اسٹیبلشمنٹ ملک میں نئے انتظامی صوبے بنانے کے حوالے سے اہم فیصلے کرنے جا رہی ہے، اس لیے مختلف شہروں میں اس موضوع پر سیمینارز اور کانفرنسز کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ ان کانفرنسز اور سیمینارز کا موضوع بحث نئے صوبے یا نئے انتظامی یونٹس بنانے کے فوائد تھا۔ کانفرنسز کے زیادہ تر شرکا کا یہ موقف تھا کہ اس وقت گورننس معیشت، امن و امان، تعلیم اور صحت سمیت بیسیوں شعبوں میں اصلاحات کیلئے نئے انتظامی صوبوں کا قیام ناگزیر ہو چکا ہے۔ شرکا کا مطالبہ تھا کہ اس معاملے کو فوری طور پر پارلیمینٹ میں لایا جائے، تا کہ نئے انتظامی یونٹس کے قیام کیلئے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جا سکے جو سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد تجاویز پارلیمینٹ کو بھجوائے۔
اسلام آباد میں یہ افواہیں بھی گرم ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ 27 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے نئے صوبوں کے قیام کی راہ ہموار کرنا چاہتی ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق فوجی اسٹیبلشمنٹ کا یہ موقف ہے کہ پاکستان کے موجودہ صوبوں کا ماڈل غیر حقیقی ہے، اگر پنجاب کی بات کی جائے تو آبادی کے لحاظ سے پنجاب دنیا کے 180 ممالک سے بڑا ہے، اسی طرح بلوچستان رقبے کے لحاظ سے دنیا کے 130 ممالک سے بڑا ہے، لہذا اس تقسیم کے ساتھ پاکستان میں گورننس کے مسائل کا حل اور عوام کو ریلیف پہنچانا ممکن نہیں۔
اگرچہ پاکستان میں نئے صوبوں کے حوالے سے آوازیں اٹھتی رہتی ہیں مگر یہ آوازیں لسانی بنیادوں پر صوبے بنانے سے متعلق ہوتی ہیں، جو پاکستان کے حقیقی مسائل کے حل کی بجائے ایک لسانی اور سیاسی نعرہ دکھائی دیتا ہے، جبکہ ماہرین خالصتاً انتظامی بنیادوں پر انتظامی یونٹس کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ اس حوالے سے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے تیار کردہ ایک کانسپٹ پیپر میں تجویز کیا گیا ہے کہ 197 کے انتظامی یونٹس کو نئے صوبوں کا درجہ دے دیا جائے۔ اس تجویز کے مطابق پنجاب کو پانچ ، سندھ اور خیبر پختونخوا کو تین تین جبکہ بلوچستان کو دو صوبوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ان مجوزہ انتظامی یونٹس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ لاہور کے 1972ء کے سول ڈویژن ماڈل، بشمول لاہور قصور، شیخوپورہ، ننکانہ صاحب، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، نارووال، گجرات، منڈی بہاؤالدین اور حافظ آباد، کو صوبے کا درجہ دیا جا سکتا ہے، یہ صوبہ کل 28 ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر مشتمل ہو گا اور اس کی آبادی چار کروڑ 15 لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہوگی۔
اس طرح ملتان، وہاڑی، خانیوال، لودھراں، ڈی جی خان، راجن پور، لیہ، مظفرگڑھ، ساہیوال، اوکاڑہ اور پاکپتن کے اضلاع پر مشتمل علاقے کو صوبہ بنایا جانا چاہیے جو کہ 60000 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ اسکے علاوہ سرگودھا، میانوالی، بھکر، فیصل آباد، جھنگ، چنیوٹ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے اضلاع پر مشتمل ایک صوبہ بنانے کی تجویز دی گئی ہے جس کا رقبہ 45000 مربع کلو میٹر بنتا ہے اور آبادی دو کروڑ 58 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔
بہاولپور، بہاولنگر، رحیم یار خان کا رقبہ 45346 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے جبکہ انکی آبادی ایک کروڑ 34 لاکھ سے زائد ہے، ان علاقوں کو بھی صوبے کا درجہ دیا جا سکتا ہے، اس طرح راولپنڈی، جہلم، چکوال اور اٹک کی آبادی ایک کروڑ 14 لاکھ جبکہ رقبہ 22000 مربع کلو میٹر سے زائد ہے۔
اسی طرح کراچی ساؤتھ، کراچی ویسٹ، کراچی ایسٹ، کراچی سینٹرل، ملیر، کورنگی اور کیماڑی پر مشتمل علاقے کو صوبے کا درجہ دینے کی تجویز پیش کی گئی، جس کی آبادی دو کروڑ 38 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، اسی طرح گھوٹکی، خیرپور، سکھر، سانگھڑ، نوشہرو فیروز، شہید بینظیر آباد، جیکب آباد، کشمور، لاڑکانہ، قمبر شہداد کوٹ اور شکارپور کے علاقوں کو الگ صوبے کا درجہ دینے کی تجویز پیش کی گئی۔
بدین، دادو، جامشورو، حیدرآباد، مٹیاری، ٹنڈو اللہ یار، ٹنڈو محمد خان، ٹھٹھہ، سجاول، میرپورخاص، تھرپارکر اور عمر کوٹ کو بھی صوبے کا درجہ دینے کی تجویز دی گئی۔
اسی طرح خیبر پختونخوا کے لیے تجویز کردہ تین انتظامی یونٹس میں مالاکنڈ، چترال، سوات اور دیر پر مشتمل صوبہ مالاکنڈ، جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان، جنوبی وزیرستان، ٹانک، بنوں، لکی مروت، شمالی وزیرستان پر مشتمل ڈی آ ئی خان صوبہ بنانے کی تجویز دی گئی۔ اس تجویز کے تحت پشاو، چارسدہ، نوشہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور، مانسہرہ، کوہستان، کوہاٹ، ہنگو، کرک، کرم، اورکزئی، مردان اور صوابی کے علاقوں پر مشتمل ایک نیا صوبہ بنایا جا سکتا ہے، اسی طرح بلوچستان میں کوئٹہ اور قلات پر مشتمل دو الگ صوبے بنانے کی تجویز سامنے آئی ہے۔
فوجی اسٹیبلشمنٹ کا موقف ہے کہ گورننس کے مسائل کے حل کیلئے درکار نئے صوبوں کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی اشرافیہ ہے کیونکہ نئی حد بندیاں ان کے سیاسی ماڈل کیلئے نقصان دہ ہیں، دوسری جانب سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی مزید صوبے بنانے کے حق میں نہیں، مسلم لیگ (ن) کی بھی پنجاب میں نئے انتظامی یونٹس کے قیام میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے، تاہم نئے انتظامی صوبے بنانے کے لیے آئین میں ترمیم کرنا ہوگی لہذا آخری فیصلہ پارلیمنٹ میں ہی ہو گا۔ اسی لیے 27 ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں یہ ایجنڈا بھی شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
