صدر ٹرمپ کے امن منصوبے پر عمران خان کچھ بولتے کیوں نہیں؟

ایران پر اسرائیلی حملہ ہو یا غزہ میں جنگ بندی سے متعلق صدر ٹرمپ کا امن منصوبہ، خود کو امت مسلمہ کا لیڈر کہلوانے کے شوقین عمران خان نے ان تمام اہم ترین تنازعات پر مکمل اور پراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ جب حال ہی میں صدر ٹرمپ کا متنازعہ امن منصوبہ منظر عام پر آیا تو پاکستان کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے اس کے خلاف اپنا نقطہ نظر واشگاف بیان کیا، لیکن خود کو پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کا سربراہ قرار دینے والے عمران خان اس ایشو پر پوزیشن لینے سے انکاری ہیں۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ موصوف اب بھی صدر ٹرمپ سے اپنی رہائی کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں اور انہیں ناراض نہیں کرنا چاہتے۔
ٹرمپ کا امن منصوبہ سامنے آنے کے تین روز بعد عمران کے ایکس اکاؤنٹ پر جب پہلی پوسٹ کی گئی تو یوتھیوں کو امید تھی کہ انکا خان امن منصوبے کے بخئے اکھیڑ کر رکھ دے گا، لیکن ’’امت مسلمہ کے لیڈر‘‘ نے اس بارے میں ایک لفظ نہیں کہا۔ اپنی طویل ترین پوسٹ میں عمران خان نے صرف توشہ خانہ کیس کا رونا رویا اور اس خدشے کا اظہار کیا کہ انہیں سزا سنانے کی تیاری مکمل ہے۔
یہ پہلی بار نہیں کہ اس قدر اہم ایشو پر بانی پی ٹی آئی نے چپ کا روزہ رکھا۔ اس سے پہلے ایران پر اسرائیلی حملے کے معاملے پر بھی عمران خان نے اپنے ہونٹ سی لئے تھے اور آج تک اس پر لب کشائی نہیں کی۔ عمران خان کے ساتھ طویل عرصہ گزارنے والے ایک سینیئر پی ٹی آئی لیڈر کہتے ہیں کہ اس سارے معاملے سے ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ جیل کی قید نے عمران خان کی ذہنی صحت کو متاثر نہیں کیا ہے اور کسی بھی سودے میں سود و زیاں کا انہیں پورا احساس ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خان کا شاطر دماغ پوری طرح کام کررہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے ایران پر امریکی حملے کے حوالے سے بھی عمران نے کوئی رد عمل نہیں دیا حالانکہ انہوں نے اپنی حکومت کے خاتمے کا الزام امریکہ پر عائد کیا تھا۔ انکے مطابق ایران مخالف اسرائیلی جارحیت پر عمران کے خاموش رہنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایران کی حمایت میں بول کر امریکہ اور اسرائیل کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ صدر ٹرمپ عمران کو بھلا کر موجودہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فلسطین بارے ٹرمپ کا امن منصوبہ عمران خان کے لئے ایران والے ایشو سے زیادہ پیچیدہ نکلا۔ اگر وہ ٹرمپ کے امن معاہدے کے خلاف بیان دیتے تو نا صرف امریکہ اور اسرائیل بلکہ سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ریاستوں کی ناراضی بھی مول لینا پڑتی جو اس معاہدے کے بنیادی کردار ہیں۔ چونکہ امن منصوبے میں موجودہ پاکستانی حکومت نے بھی رول ادا کیا ہے، لہٰذا عمران کا دل تو بہت کیا ہو گا کہ وہ اس پر شہباز حکومت کے اسی طرح لتّے لیتے، جس طرح باقی اپوزیشن پارٹیوں کے سربراہوں نے لئے۔ لیکن حالات سے مجبور انقلابی نے شاید دل میں ہی شہباز حکومت کو برا بھلا کہنے پر اکتفا کیا۔
صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کے معاملے پر سب سے زیادہ قابل رحم حالت عمران کے ان پیروکاروں کی رہی، جنہیں ہمیشہ کی طرح اس بات کا ہوش ہی نہیں کہ ایک بار پھر ان کے دیوتا نے ان سے ہاتھ کردیا ہے۔ ٹرمپ امن منصوبے پر دیوتا خاموش رہا اور پجاریوں نے سوشل میڈیا پر طوفان برپا کئے رکھا۔ اس سے قبل پاک سعودی تاریخی معاہدے پر بھی پجاریوں نے منفی سوشل میڈیا کمپین چلانے کی کوشش کی تھی۔ تاہم دیوتا نے تب بروقت جیل سے اپنے ایکس اکاؤنٹ کے ذریعے اس معاہدے کو خوش آئند قرار دے دیا تھا۔ اور پیرو کاروں نے اسے مرشد کے گیان سے تعبیر کیا تھا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاک سعودی سٹریٹیجک معاہدے کی تائید اس لیے خان کی مجبوری تھی کہ وہ موجودہ صورت حال میں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کے نتائج سے آگاہ ہیں جو پہلے ہی ان کے دور حکومت میں سرد مہری کا شکار ہوگئے تھے۔ پھر یہ کہ اگر مستقبل میں کسی ڈیل کے تحت دیوتا بیرون ملک جانے کی ڈیل کرلیتا ہے تو اس کے لئے سعودی عرب ان کی ممکنہ پناہ گاہ ہوسکتی ہے۔ ان باریکیوں سے دیوتا کے پیروکار نابلد ہیں، چنانچہ دونوں ممالک کے درمیان تاریخی دفاعی معاہدہ ہوتے ہی انہوں نے حسب روایت منفی پروپیگنڈا شروع کر دیا تھا۔ لیکن دیوتا نے ان کی خواہشات کے برعکس معاہدے کی تائید کردی تو منفی کمپین جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔
بعد ازاں انتشار پسند پجاریوں کے ہاتھ ایک نیا ایشو فلسطین سے متعلق ٹرمپ کے امن معاہدے کے طور پر آیا، چنانچہ سوشل میڈیا پر اس کے خلاف ایک نان سٹاپ کمپین چلائی گئی۔ لیکن بے ادبی کے ڈر سے وہ اس بار بھی مرشد سے یہ پوچھنے کی جسارت نہیں کر سکے کہ ایران اسرائیل جنگ کے ایشو کی طرح اس معاملے پر بھی اس نے لب کیوں سی لئے ہیں۔ اس سوشل میڈیا کمپین میں زیادہ تر اوورسیز پجاری شامل ہیں جو امریکہ یورپ کی ٹھنڈی فضاؤں میں لگژری لائف سے لطف اندوز ہوتے ہوئے فلسطینیوں کو مزید جہاد اور جانیں قربان کرنے کی تلقین کرتے رہے۔ خود انہوں نے کبھی ایک پانی بوتل کی بھی شاید ان بے آسرا فلسطینیوں کو نہیں پہنچائی ہوگی۔
