پاکستان بھارتی حملوں کا جواب دینے میں تاخیر کیوں کر رہا ہے؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار عمار مسعود نے کہا ہے کہ بھارتی حملوں کے بعد سوشل میڈیا پر فوج کے حوالے سے مایوسی پھیلانے والوں کو جان لینا چاہیے کہ بھارتی دراندازی پر بھرپور پاکستانی رد عمل لازمی آنا ہے، یہ ممکن ہی نہیں کہ پاکستان بھارتی حملوں کا جواب نہ دے اور اس کی عسکری برتری تسلیم کر لے۔
اپنے تازہ تجزیے میں عمار مسعود لکھتے ہیں کہ یاد رکھیں! پاکستان بھارت کو ایسا جواب دے گا جس کا اس نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔ بھارت کو ایسا جواب ملے گا جس سے اس کا غرور سرنگوں ہو جائے گا۔ انڈیا کو ایسا جواب دیا جائے گا جو خطے میں پاکستان کی برتری کے لیے حتمی اور اٹل ہوگا۔ عمار کہتے ییں کہ اس ملک اور اس کی فوج سے مایوس نہ ہوں۔ یہ جان تو قربان کر سکتے ہیں مگر بھارت کی برتری تسلیم نہیں کر سکتے۔ بھارت کو بے شک پاکستان پر عددی برتری حاصل ہے، جدید ٹیکنالوجی اس کے پاس ہے لیکن جن کے دل میں جذبہ شہادت موجزن ہو وہ کسی سے بھی ٹکرا جانے کی اہلیت رکھتے ہیں لہٰذا میرا مشورہ یہ ہے کہ اپنے محافظوں پر اعتبار کریں اور یاد رکھیں کہ اس زمیں کا چپہ چپہ خدائے رب کریم کی امانت ہے اور اس قوم کو اور اس کی فوجی قیادت کو اس کا دفاع کرنا خوب آتا ہے۔ جس قوم کی سپاہ کی سب سے بڑی آرزو شہادت ہو اس قوم کو، اس کے جذبے کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔
عمار مسعود یاد دلاتے ہیں کہ مئی 1998 میں بھارت نے اچانک 5 ایٹمی دھماکے کر کے خطے میں طاقت کے توازن کو پلٹا کر رکھ دیا تھا۔ 9 مئی کو ہونے والے یہ ایٹمی دھماکے پاکستان کے لیے تازیانہ بن گئے تھے۔ پاکستان سے فوری ردعمل کی توقع تھی لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔ پاکستان نے بین الاقوامی طور پر احتجاج تو کیا مگر پاکستانیوں کو اس سے زیادہ کی توقع تھی۔ پاکستانیوں کی عمر گزر گئی تھی یہ قصہ سنتے سنتے کہ کس طرح ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ہالینڈ سے یورینیم افزودگی کے طریقے پاکستان بھجوائے، کس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے اس منصوبے کا خفیہ اجرا کیا اور کس طرح ہم نے اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے اٹامک پلانٹ کو تخلیق کیا۔ اس زمانے میں سب سے بڑا خواب یہی تھا کہ پاکستان پہلی اسلامی ایٹمی قوت بنے گا۔ اس قوت کے بننے سے پاکستان ہی نہیں پورا عالم اسلام محفوظ ہو جائے گا۔ بھارت کی عددی بالادستی خاک میں مل جائے گی اور خطے میں طاقت کا توازن قائم ہو گا۔
لہذا بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستانی چاہتے تھے کہ ہم بھی ابھی اور اسی وقت ایٹمی دھماکے کریں اور دنیا کو بتا دیں کہ پاکستان ایک ناقابل تسخیر ایٹمی قوت بن چکا ہے۔ دوسری طرف بھارت میں جشن کا سماں تھا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ بالآخر پاکستان کو تسخیر کر لیا گیا۔ بھارتی عوام اور پارلیمنٹ فتح کے گیت گا رہے تھے مگر پاکستان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آ رہا تھا۔ اس دوران تب کے وزیر اعظم نواز شریف دفاعی تجزیہ کاروں، سائنسدانوں سے مذاکرات کر رہے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ جلد از جلد واشگاف طور پر بتا دیا جائے کہ ہم پہلی اسلامی ایٹمی قوت بن چکے ہیں۔ سائنسدانوں نے نواز شریف سے تیاریوں کے لیے 3 ہفتے کا وقت مانگا۔ نواز شریف کو بھی عوام کی طرح جلدی تھی مگر کسی غلطی کا رسک بھی نہیں لیا جا سکتا تھا۔پاکستان نے اپنے طور پر تیاریاں شروع کر دیں لیکن ان تیاریوں کی خبر عوام تک نہیں پہنچی۔ لوگ کے لیے معلومات کو روایتی بیانات تک محدود رکھا گیا۔
عمار مسعود بتاتے ہیں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستانیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا جاتا تھا۔ اپنے لوگ یہ سمجھنے لگے کہ پاکستان کے پاس ایٹمی اہلیت ہے ہی نہیں۔ عبدالقدیر خان ایک فراڈ ہیں۔ اٹامک انرجی ایک ناکام پراجیکٹ ہے۔ حکومت پاکستان بزدل اور نااہل ہے۔ فوج مصلحت کا شکار ہے۔ پاکستان بین الاقوامی دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیک چکا ہے۔ نواز شریف نے امریکا سے ڈالر پکڑ لیے ہیں الغرضیکہ جتنے منہ تھے اتنی باتیں۔ کوئی پاکستانی نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان اپنے روایتی حریف کے سامنے چھوٹا پڑے۔ کوئی بھارت کی برتری کوتسلیم کرنے پر رضامند نہیں تھا۔ کوئی خطے میں طاقت کے توازن کو بگڑتا نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ لوگوں کے جذبات بھڑک رہے تھے۔ حکومت پر تنقید کے تبرے برسائے جا رہے تھے۔ لوگ مجموعی طور پر یہ سمجھ رہے تھے کہ نہ ہمارے پاس ایٹمی اہلیت ہے اور اگر ہے تو اس کے اظہار کی جرات نہیں ہے۔ یہ ایک تکلیف دہ کیفیت تھی۔ اصل صورت حال نواز شریف اور اہم عسکری عہدیدار ہی جانتے تھے۔ 3 ہفتے کا انتظار کیا جا رہا تھا۔ ان 3 ہفتوں میں نہ عوام کو کچھ بتایا جا سکتا تھا نہ دلاسا دیا جا سکتا تھا۔
انڈیا کی جانب سے پاکستان پر مسلسل ڈرون حملوں کا مقصد کیا ہے؟
خیر خدا خدا کر تین ہفتے میں تیاریاں مکمل ہوئیں تو 28 مئی 1998 کو پاکستان نے چاغی کے مقام پر 7 کامیاب ایٹمی دھماکے کر ڈالے۔ پاکستان کسی بین الاقوامی دباؤ کو خاطر میں نہیں لایا۔ جس وقت یہ دھماکے کیے گئے تب بھارت میں لوک سبھا کا اجلاس چل رہا تھا۔ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی فاتحانہ تقریر کر کے اپنے ہم وطنوں کا دل گرما رہے تھے۔ ان کی تقریر رکوائی گئی اور انہیں پاکستان کے سات کامیاب ایٹمی دھماکوں کی اطلاع دی گئی۔ وہ منظر آج بھی یو ٹیوب پر محفوظ ہے۔ بھارت کی ساری شیخی ایک لمحے میں دھری کی دھری رہ گئی۔ فتح کا جشن منانے والے اچانک ماتم کرنے لگے۔ نعرے مارنے والے سسکیاں بھرنے لگے۔ ساری دنیا میں پاکستان کی ایٹمی قوت کے ڈنکے بجنے لگے۔ پاکستانیوں کے جذبے آسمان تک جا پہنچے۔ نعرہ تکبیر کی صدائیں فضا میں گونجنے لگیں۔ اس دن کے بعد کسی کی کبھی جرات نہیں ہوئی کہ پاکستان کی طرف بری نظر سے دیکھے۔
عمار مسعود کہتے ہیں کہ 27 سال پرانی ساری کہانی کا صرف ایک مقصد ہے کہ اب بھی صورت حال مختلف نہیں ہے۔ بھارت بزدلانہ در اندازی کر چکا ہے، اب پاکستان کے جواب دینے کی باری ہے۔ سب کو جلدی ہے۔ لوگ طعنے بھی دے رہے ہیں اور طنز بھی کر رہے ہیں۔ دبے دبے لفظوں میں یہ بات کہنا شروع ہو گئے کہ شاید ہم نے شکست تسلیم کر لی ہے۔ لیکن یاد رکھیے کہ پاکستان بھارت کو دندان شکن جواب دینے کی تیاری کر رہا ہے جس میں چند روز تو لگ سکتے ہیں لیکن جواب ضرور دیا جائے گا۔