انڈیا کی جانب سے پاکستان پر مسلسل ڈرون حملوں کا مقصد کیا ہے؟

بھارت کی جانب سے پاکستان کے مختلف شہروں پر مسلسل ڈرون حملوں کے بعد یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ مودی سرکار آخر چاہتی کیا ہے؟ کیا وہ پاکستانی فوجی قیادت کو بھارت پر جوابی حملے کے لیے اکسا رہی ہے یا پاکستان کے ہاتھوں اپنے 5 جنگی جہازوں کے تباہ ہونے کی شرمندگی مٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔
پاکستانی فوجی ترجمان نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے راولپنڈی، گوجرانوالہ، لاہور اور کراچی سمیت مختلف شہروں میں 30 بھارتی ڈرون طیارے مار گرائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت کی بڑھتی ہوئی جارحیت کے بعد اب پاکستان کی طرف سے جوابی حملہ ناگزیر ہو چکا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان احمد شریف چوہدری نے میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ بھارتی ائیر فورس نے 8 اپریل کو پاکستان کے مختلف شہروں پر ڈھائی درجن کے قریب اسرائیلی ساختہ ڈرونز برسائے جنہیں اہداف تک پہنچنے سے پہلے ہی ناکام بنا دیا گیا۔
بتایا گیا ہے کہ ڈرون حملوں کے نتیجے میں سندھ کے علاقے سکھر کی میانو بستی میں ایک شہری ہلاک ہو گیا جبکہ راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم کے قریب فوڈ سٹریٹ پر بھارتی ڈرون گرنے سے ایک شہری شدید زخمی ہوا۔ راولپنڈی میں ڈرون حملے کے مقام کے دورے کے دوران جہاں فوڈ سٹریٹ کے باہر لوگوں کا ہجوم جمع تھا، وہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی علاقے کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔ اس موقع پر باہر جمع عوام ’بھارتی جارحیت‘ کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے سخت جوابی کارروائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
یاد رہے کہ یہ پاکستان کی سرزمین پر بھارت کا دوسرا حملہ تھا۔ اس سے پہلے بھارتی ائیر فورس نے بہاولپور، مریدکے، مظفرآباد اور کوٹلی سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں کئی اہداف کو نشانہ بنایا تھا، جن میں کئی افراد مارے گئے تھے۔ پاکستان نے ان حملوں کا دفاع کرتے ہوئے بھارت کے پانچ طیارے مار گرانے کا دعویٰ کیا تھا۔اگرچہ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے آرٹیکل 51 کے تحت جوابی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے، لیکن کچھ ماہرین کا خیال تھا کہ پاکستان فوری طور پر بھارت پر حملہ کرنے کا انتخاب نہیں کرے گا کیونکہ بھارتی طیارے گرانے کے بعد اسے ایک نفسیاتی برتری حاصل ہو چکی ہے۔
بین الاقوامی تعلقات اور دفاعی امور پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا بھارت پر جوابی حملہ اب ناگزیر ہو چکا ہے کیونکہ جب تک پاکستان مؤثر جوابی کارروائی نہیں کرتا، بھارت اپنی جارحیت سے باز نہیں آئے گا۔ سکیورٹی تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل نعیم خالد لودھی کا کہنا تھا کہ اگرچہ حکومت پاکستان بھارت پر جوابی حملے کا عندیہ دے رہی ہے لیکن ضروری نہیں کہ جوابی حملہ فوری طور پر کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوجی ترجمان نے واضح طور پر کہا ہے کہ پاکستان جوابی حملے کا حق محفوظ رکھتا ہے اور اس حوالے سے دن اور وقت کا فیصلہ خود کرے گا۔
تاہم مسلسل بھارتی ڈرون حملوں کے بعد سابق وزیر دفاع نعیم خالد لودھی کا کہنا یے کہ صورتحال اب بدلتی جا رہی ہے اور بھارتی ڈرون حملے اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ پاکستان بھارت پر ایسا حملہ کرے، جس سے بھارت کو یہ اندازہ ہو کہ پاکستان کس طرح جواب دے سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا حملہ ضروری ہے تاکہ بھارت کی جانب سے مزید جارحیت کو روکنے کے لیے ایک مؤثر روک تھام کی جا سکے۔ نعیم لودھی کا کہنا تھا کہ بھارت کے بڑے جنگی منصوبے ہیں اور وہ صرف پاکستان پر حملہ کرنے کے لیے ڈرون نہیں بھیج رہا بلکہ اس کا مقصد پاکستان کے سٹریٹجک مقامات کی معلومات حاصل کرنا ہے۔ نعیم لودھی کا کہنا تھا کہ دراصل چھوٹے انڈین ڈرون زیادہ تباہی نہیں پھیلا سکتے، لیکن ہم پھر بھی یہ معلومات اکٹھی کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان اس حملہ کرے تاکہ وہ مزید اشتعال انگیزی کے لیے جواز بنا سکے۔‘‘
پاک فضائیہ نے بھارت کے آپریشن سندور کو سہاگ رات میں کیسے بدلا؟
سفارتی اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین بھی اس رائے سے متفق ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی مزید بڑھے گی اور اب پاکستان کے لیے جوابی کارروائی کرنا ناگزیر بنتا جا رہا ہے۔ سابق سفارتکار اور دو بار اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب رہ چکنے والے منیر اکرم کا کہنا ہے کہ بھارت نے پاکستان مخالف میزائل حملوں کی شروعات اپنے طیاروں کے ذریعے کی، لیکن ہم نے پانچ بھارتی طیارے گرا کر انکا سرا آپریشن ناکام بنا دیا۔ یہ بھارت کی موجودہ حکومت، بالخصوص نریندر مودی کے لیے شرمندگی کا باعث بن گیا ہے، اسی لیے انہوں نے دوبارہ پاکستان کو اشتعال دلانے کے لیے ڈرونز بھیجے ہیں، اور اب پاکستان کا جواب دینا ناگزیر ہو چکا ہے‘۔
ایک ایسے وقت میں کہ جب دفاعی اور سفارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا جوابی حملہ ناگزیر ہو چکا ہے، وہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ صورتحال خطے کے لیے ایک خطرناک موڑ کی طرف بڑھ رہی ہے اور دونوں ایٹمی طاقتوں کو ہوش مندانہ فیصلے کرتے ہوئے عوامی دباؤ پر عمل کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ بین الاقوامی امور کی ماہر اور سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر ہما بقائی کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ممالک سبکی سے بچنے کے لیے ایسے اقدامات کر رہے ہیں۔ ابتدائی حملوں میں طیارے کھونے کے بعد بھارتی حکومت نے خود کو کمزور پوزیشن پر محسوس کیا، اس لیے انہوں نے ایک اور حملہ کیا اور اب پاکستان سے جوابی کارروائی کی توقع کی جا رہی ہے۔
لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ ‘یہ صورتحال خطے کے امن کے لیے نہایت خطرناک ہے اور اس میں چین اور روس جیسے دیگر ممالک بھی ملوث ہو سکتے ہیں۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھے اور مزید کشیدگی کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرے‘۔