پاک فضائیہ نے بھارت کے آپریشن سندور کو سہاگ رات میں کیسے بدلا؟

پاکستانی ایئر فورس نے اپنی شاندار کارگردگی سے بھارتی فضائیہ کی جانب سے رات کے اندھیرے میں شروع کیے جانے والے آپریشن سندور کو کاؤنٹر کرتے ہوئے سہاگ رات میں بدل ڈالا اور رات بھر میں پانچ بھارتی جنگی طیارے تباہ کر ڈالے۔

 

روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں معروف لکھاری اور تجزیہ کار بلال غوری کہتے ہیں کہ بھارت نے 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب ’’آپریشن سندور‘‘کے نام پر جس جارحیت کا ارتکاب کیا، وہ دراصل ایک خوفناک جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ بھارت کی طرف سے ایسی واضح جارحیت کا ارتکاب کیا گیا ہے جس کی کوئی توجیہہ پیش نہیں کی جا سکتی۔ بھارتی وزارت دفاع کی پریس ریلیز میں اعتراف کیا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے کسی فوجی ہدف پر میزائل نہیں داغا گیا بلکہ عام افرادکو نشانہ بنایا گیا ہے۔ بھارت کی جانب سےمساجد اور مدارس پر کئے گئے ان حملوں میں بے گناہ اور نہتے شہری شہید ہوئے۔ یعنی یہ کارروائی کسی متنازع علاقہ تک محدود نہیں رہی بلکہ پاکستان کے مختلف شہروں پر حملہ کرکے دراصل طبل جنگ بجا دیا ہے۔

 

بلال غوری کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین اس سے پہلے اگلے مورچوں پر گولہ باری ہوتی تھی ،کبھی جنگی جہاز فضائی حدود کی خلاف ورزی کیا کرتے تھے یا پھر بالاکوٹ میں مبینہ سرجیکل اسٹرائیک کر کے جنگی جنون کی پیاس بجھائی جاتی تھی مگر اس قسم کی مہم جوئی کے دوران دونوں ممالک کی طرف سے یہ اہتمام کیا جاتا تھا کہ محاذ آرائی متنازعہ علاقوں تک محدود رہے اور مکمل جنگ کی نوبت نہ آئے۔ جیسا کہ بالاکوٹ کے بعد پاک فضائیہ نے بھارتی فوج کے نوشہرہ بریگیڈ ہیڈ کوارٹر سے کچھ فاصلے پر بم گرائے اور وہاں موجود بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت کو نشانہ بنانے سے گریز کیا تاکہ کشیدگی ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھے۔ بلال غوری کے مطابق بم گرانے کے بعد جب پاک فضائیہ کے ان جنگی جہازوں کی واپسی پر بھارتی طیارے تعاقب کرتے ہوئے پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہو گئے اور انہیں تباہ کردیا گیا تو محض 58گھنٹے بعد ہی بھارتی پائلٹ ابھینندن ورتمان کو واپس کردیا گیا تاکہ جوہری صلاحیت کے حامل دو ممالک کے درمیان جنگ کے امکانات کو کم کیا جا سکے۔ تاہم اس بار بھارت نے پاکستان کے مختلف شہروں میں شہری آبادی اور مساجد کو نشانہ بنا کر تمام حدود پامال کر دی ہیں۔

2 برس بعد بھی 9 مئی کے حملہ آور سزا سے کیوں بچے ہوئے ہیں؟

 

بلال غوری کے مطابق ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان حملوں کے جواب میں پاکستان کی جانب سے امرتسر، دہلی اور دیگر بھارتی شہروں پر میزائل برسائے جاتے لیکن ریاست پاکستان نے ذ مہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ابھی تک اس قسم کی کارروائی سے گریز کیا ہے البتہ دشمن کے چھ جنگی جہاز گرا کر ثابت کر دیا کہ ملکی دفاع اور سالمیت پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ بلال غوری کا مزید کہنا ہے کہ بالعموم جنگیں اسی طرح کے اشتعال انگیز اقدامات سے ہی شروع ہوتی ہیں اور ایک چھوٹی سے چنگاری پورے خطے کو جلا کر خاکستر کر دیتی ہے۔ بلال غوری کے مطابق کم لوگ جانتے ہیں کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ بھی محض ایک کچی سڑک کی وجہ سے شروع ہوئی تھی؟ سندھ کے ویران اور سنسان علاقے ’’رن آف کچھ‘‘ میں ’’ڈنگ‘‘ اور ’’سرائی‘‘ کے علاقوں کو ملانے کیلئے پاک فوج نے 18میل طویل غیر پختہ سڑک بنائی جس پر سرحدی جھڑپیں شروع ہوئیں اور پھر دونوں ملکوں میں جنگ چھڑ گئی۔ بزدل اور ڈرپوک دشمن نے اچانک رات کی تاریکی میں حملہ تو 6ستمبر کو کیا لیکن اس جنگ کا آغاز بہت پہلے ہو چکا تھا۔بلال غوری کے مطابق ’’رن آف کچھ‘‘ کا علاقہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی متنازع سمجھا جاتا تھا اس لیے دونوں ملکوں نے یہاں چیک پوسٹیں بنانے سے گریز کیا۔ جنوری 1965ء میں پاکستان نے یہاں ’’ڈنگ‘‘ اور ’’سرائی‘‘ کو ملانے کیلئے کچی سڑک بنائی تو بھارت نے سفارتی سطح پر احتجاج کیا۔ پاکستان نے موقف اختیار کیا کہ یہ علاقے تو قیام پاکستان سے ہی ہمارے کنٹرول میں ہیں۔ بھارت بھی خم ٹھونک کر میدان میں آ گیا اور کانجر کوٹ قلعہ سے نصف کلومیٹر کے فاصلے پر سردار پوسٹ چیک پوسٹ قائم کر دی۔ بعد ازاں اسی کشیدگی کی کوکھ سے آپریشن جبرالٹر اور گرینڈ سلام نے جنم لیا اور پھر دونوں ملکوں میں باضابطہ جنگ چھڑ گئی۔

 

سینئر تجزیہ کار بلاول غوری کا مزید کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستان بھارتی جارحیت کا جواب تو ضرور دے گا لیکن اگر عالمی برادری نے اپنا کردار ادا نہ کیا اور بھارت کی بدمعاشی کو روکنے کی کوشش نہ کی گئی تو پھر کئی سہاگنوں کے سہاگ اُجڑ جائیں گے اور اس کی ذمہ داری ’’آپریشن سندور‘‘ کی حماقت کرنے والوں پر ہو گی۔

Back to top button