بلوچستان میں پنجابیوں کی ٹارگٹ کلنگ کیوں نہیں رک پا رہی؟

بلوچستان میں شرپسندوں کی جانب سے مسافروں کو بسوں سے اتار کر گولیاں مارنے اور غیر بلوچ مزدوروں کو فائرنگ کرکے ہلاک کرنے کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ بلوچستان میں پے درپے سامنے آنے والے شرپسندانہ واقعات نے صوبے کی سیکیورٹی صورتِ حال پر پھر سوال اُٹھا دیے ہیں۔

ماہرین کے مطابق بلوچ علیحدگی پسند سیکیورٹی فورسز اور چینی باشندوں کے ساتھ ساتھ دیگر صوبوں خصوصاً پنجاب سے آنے والے مزدوروں اور مسافروں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔تاہم یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان میں غیربلوچ مزدوروں پرحملوں میں تیزی کیوں دیکھی جا رہی ہے؟ شرپسندوں کے غیر بلوچ افراد پر حملوں کے پس پردہ محرکات کیا ہیں۔

بلوچستان کی شورش کا تجزیہ کرنے والے تھنک ٹینک اور ماہرین کا کہناہے کہ حالیہ عرصے میں پنجاب کے مزدوروں اور مسافروں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔اسلام آباد میں قائم پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹیڈیز کی سالانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں بالخصوص بی ایل اے کا بنیادی ہدف سیکیورٹی فورسز رہی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملوں میں بھی شدت آئی ہے۔

رپورٹ میں تجزیہ کیا گیاہے کہ بی ایل اے شروع ہی سے غیر بلوچ افراد، خاص طور پر پنجابیوں اور سندھیوں کو نشانہ بناتی رہی ہے۔ مگر حال ہی میں اپنائی جانے والی نئی حکمتِ عملی کے تحت وہ بلوچستان کی اہم شاہراہوں پر مسافر بسوں اور ٹرکوں کو روکتی ہے اور شناختی کارڈز کے ذریعے شناخت کی تصدیق کے بعد وہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو قتل کر دیتے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیاہے کہ یہ حملے کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے بلوچستان اور پنجاب کے درمیان تناؤ کو بڑھانے کی ایک منظم کوشش کا حصہ ہیں کیوں کہ ان تنظیموں کی بقا پنجاب کے خلاف دشمنی کو فروغ دینے میں مضمر ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق کالعدم علیحدگی پسند تنظیمیں پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کو نشانہ بنا کر ریاست کے خلاف شورش کو نمایاں کرنا چاہتی ہیں۔اُن کے بقول بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں یہ بھی سمجھتی ہیں کہ پنجابی باشندے وفاقی حکومت یا فوج کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ اسی بنیاد پر یہ تنظیمیں ان مزدوروں کو سیکیورٹی فورسز کے ایجنٹ یا مخبر ہونے کے شبہے میں نشانہ بناتی ہیں۔ یہ تنظیمیں پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدرووں جیسے "سافٹ ٹارگٹس” کو نشانہ بنا کر ملکی سطح پر ذرائع ابلاغ کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔

خیال رہے کہ سندھ کے مختلف اضلاع میں بھی سندھو دیش ریولوشنری آرمی (ایس ار اے) نامی ایک کالعدم علیحدگی پسند تنظیم پنجاب کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے باشندوں اور مزدوروں کو نشانہ بناتی رہتی ہے۔

خیال رہے کہ ایس آر اے کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے ‘براس’ نامی اتحاد کا حصہ بھی ہے جس میں اللہ نذر بلوچ کی بلوچ لبریشن فرنٹ، بشیر زیب کی بی ایل اے، گلزار امام کی بلوچ ری پبلکن آرمی (جو بعد میں بلوچ نیشنلسٹ آرمی بنی) اور بختیار ڈومکی کی بلوچ ری پبلکن گارڈز شامل ہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں پنجاب سے آنے والے آبادکاروں کے خلاف مہم کا آغاز 1970 کی دہائی میں اس وقت ہوا جب وزیراعلیٰ عطاء اللہ مینگل کی نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کو ذوالفقار علی بھٹو نے برطرف کر دیا۔ تاہم اس دور میں اس مہم میں تشدد کا عنصر شامل نہیں تھا۔کوئٹہ میں تعینات ایک سیکیورٹی افسر کے مطابق بلوچستان خصوصاًً کوئٹہ میں غیر بلوچ آباد کاروں کے خلاف پرتشدد کارروائیاں 2006 میں اس وقت شدت اختیار کر گئیں جب ایک فوجی آپریشن کے دوران بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی ہلاک ہو ئے۔ان حملوں میں سیاسی رہنماؤں، اساتذہ اور کاروباری شخصیات کے ساتھ ساتھ عام شہری بھی نشانہ بنے۔ تاہم گزشتہ کئی برسوں سے کوئٹہ شہر میں ایسے حملے نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔البتہ بلوچستان کی شاہراہوں پر بسوں اور ٹرکوں سے مسافروں کو اتار کر ان کی شناخت کی بنیاد پر قتل کرنے کے واقعات میں حالیہ برسوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

Back to top button