مذاکرات کے باوجود عمران کی رہائی کا امکان کیوں نہیں ہے؟

اپنی ریاست مخالف جارحانہ حکمت عملی، انتشار پسندانہ طرز سیاست اور ماضی کی سیاہ کاریوں کی وجہ سے گزشتہ ڈیڑھ سال سے پابند سلاسل بانی پی ٹی آئی عمران خان کی 2025 میں بھی رہائی کے امکانات معدوم دکھائی دیتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین جاری مذاکراتی عمل کے دوران تحریک انصاف کی جانب سے اپنے مطالبات پیش کرنے کے بعد حکومت کی جانب سے مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کیلئے تین شرائط پیش سامنے لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جن میں عمران خان کی رہائی کیلئے اپنی ماضی کی غلطیوں پر ندامت اور معافی، زبان بندی اور مثبت طرز سیاست اپنانے کی شرائط شامل ہیں تاہم ناقدین کے مطابق بانی پی ٹی آئی عمران خان کے ماضی کو مدنظر رکھا جائے تو عمران خان کی جانب سے ان تینوں شرائط کو قبول کرنا اور ان پر عملدرآمد کرنا نا ممکن دکھائی دیتا ہے۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی جانب سے حکومتی پیش کردہ شرائط سے انکار کے بعد عمران خان کی رہائی تو کجا مذاکراتی عمل محض نشستن، گفتن اور برخاستن تک محدود ہو جائے گا۔ ذرائع کا دعوی ہے کہ عمران خان کی 2025 میں رہائی اس لئے بھی ممکن نہیں کی ابھی تو بانی پی ٹی آئی کیخلاف 9 مئی کے کیسز کا ٹرائل ہونا باقی ہے کیونکہ شواہد کی روشنی میں عمران خان سانحہ 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ ثابت ہو چکے ہیں جس کے بعد عمران خان کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل اور لمبی قید سے بچنا ناممکن ہے اس لئے 2025 تو کجا عمران خان کا 2030 تک بھی قید سے باہر آنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

تاہم بعض دیگر مبصرین کے مطابق جیسے جیسے دو بڑے حریفوں یعنی پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان بات چیت آگے بڑھ رہی ہے، کچھ لیگی رہنما ناقابل عمل تجاویز پیش کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

رانا ثنا کا خیال ہے کہ اگر تینوں بڑے رہنما یعنی عمران خان، نواز شریف اور آصف زرداری باہمی ملاقات پر رضامندی ظاہر کر دیتے ہیں اور مل۔بیٹھ کر معاملات حل کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں تو ملک کو درپیش سیاسی بحران حل کرنے کے لیے 70 دن درکار ہوں گے جبکہ خواجہ آصف نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے نئے سوشل کنٹریکٹ کا مطالبہ کیا ہے جو فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی کو اپنے دائرے میں لائے۔

تاہم ناقدین کے مطابق پاکستان کے دیرینہ بحرانوں کو سلجھانے کے لیے نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان کا ایک میز پر بیٹھنے کا خیال شاید غیرحقیقت پسندانہ خواہش لگتی ہے۔ پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کے مطابق مذاکرات صرف سیاسی طاقتوں کے مابین ہونے چاہیں۔ مذاکرات میں عدلیہ، فوج، ایجنسیوں اور بیوروکریسی کو شامل کرنا کوئی دانشمندانہ خیال نہیں۔سیاسی مذاکرات میں ان کا کوئی آئینی کردار نہیں ہے اور ان کے لیے رسمی کردار ادا کرنا تباہ کن ہوگا۔

تجزیہ کار اور صحافی رضا احمد رومی کے مطابق رانا ثناء اللہ کی تجویز اصولی طور پر بالکل درست اور آگے بڑھنے کا بہترین راستہ ہے۔ بڑی جماعتوں کو نیا میثاق جمہوریت تیار کرنا چاہیے جو سویلین حکمرانی کو کمزور نہ کرنے کا عہد کرے تاہم موجودہ ماحول میں یہ تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔

ممتاز دانشور پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری نے رانا ثناء اللہ کی تجویز کو علامتی لیکن موجودہ سیاسی ماحول میں ناقابل عمل قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے درجے کی قیادت کو پہلے ایک ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک مرحلہ وار عمل ہے لیکن ابھی تک ایسے اشارے نہیں ملے جن سے ظاہر ہو کہ تمام فریق اس کے لیے تیار ہیں کیونکہ نواز شریف کا کیمپ مکالمے کا حامی ہے لیکن شہباز شریف کے ساتھی اداروں کی حمایت کے ساتھ مخالفین کو پسپا کرنا چاہتے ہیں۔

بعض دیگر مبصرین کے مطابق عمران خان کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے ریاست کیخلاف برسر پیکار پی ٹی آئی ہر صورت عمران خان کو رہائی دلانا کی خواہاں ہے جس کیلئے پہلے یوتھیوں نے عمراندار عدلیہ سے امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں تاہم 26ویں آئینی ترمیم کے منظور ہونے کے بعد پی ٹی آئی کو جو عدلیہ سےامیدیں تھی کہ وہ الیکشن میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کیخلاف فیصلہ دے کر اور مخصوص نشستوں پر عملدرآمد کرواکے اس حکومت کو گھر بھیج دے گی اور اسطرح پی ٹی آئی دوبارہ اقتدار میں آجائے گی وہ امید بر نہیں آئی۔ اور امیدوں کے اس تابوت میں آخری کیل 26 نومبر کو فائنل کال کی ناکامی کی صورت میں ٹھک گئی۔ اپنے تمام تر کارڈز اور سیاسی چالیں ناکام ہونے کے بعد پی ٹی آئی نے مذاکرات کا آخری آپشن آزمانے کا فیصلہ کیا۔ حکومت کی طرف سے بھی تھوڑی پس و پیش کے بعد بالآخر مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کی حامی بھر لی گئی۔ وہی عمران خان جو کہ ان سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈران کے ساتھ ہاتھ ملانا تک گوارا نہیں کرتے تھے بالآخر گھٹنے ٹیکتے ہوئے مذاکرات پر آمادہ ہوگئے اور اپنی جماعت کی ایک مذاکراتی ٹیم کا اعلان کردیا۔

حکومت اور پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیموں کی پہلی ملاقات تو بنا کسی نتیجے کے نشستن گفتن برخاستن ہی ثابت ہوئی کیونکہ اس میں پی ٹی آئی ٹیم کے سرکردہ رہنما ہی غیر حاضر تھے۔ تاہم 2 جنوری کے اجلاس میں واضح سمت کا پتا چل جائے گا کہ آیا پی ٹی آئی ان مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہے کہ نہیں۔

تاہم مبصرین کے مطابق ایک بات بہرحال واضح ہے کہ پی ٹی آئی کے ان تمام تر مطالبات پر عملدرآمد کرنا ممکن نظر آرہا۔ تاہم حکومت جذبہ خیر سگالی کے طور پر کچھ پی ٹی آئی رہنماؤں کو ضمانت پر رہا کرواسکتی ہے۔ لیکن کیا اس کے بعد مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ مذاکرات کی کامیابی اور ناکامی کا اندازہ لگانے سے پہلے عمران خان کی طبیعت یا سائیکالوجی کوبھی سامنےرکھنا پڑے گا۔ عمران خان کے طرز سیاست اور جارحانہ مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوتے نظر نہیں آتے۔ کیونکہ اس میں ایک اہم فریق اسٹیبلشمنٹ ہے جس کی طرف سے ایک واضح مطالبہ کیا گیا تھا کہ جب تک عمران خان 9 مئی پر سرعام معافی نہیں مانگتے بات چیت نہیں ہوسکتی۔سیاسی جماعتیں بے شک جتنے بھی مذاکرات کرلیں اس کی منظوری آخر میں اسٹیبلشمنٹ سے ہی ملنی ہے۔ مذاکرات کی منظوری عمران خان کی معافی سے مشروط ہے تو کیا عمران خان معافی مانگیں گے؟ ناقدین کے مطابق ڈٹ کر کھڑا ہے کپتان کے نعروں کی وجہ سے عمران خان کا اپنے نام نہاد اصولوں کو پس پشت ڈال کر سر عام معافی مانگنا ممکن نہیں جس کے بعد بانی پی ٹی آئی کی 2025 کیا 2030 میں بھی رہائی کا امکان نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتا ہے۔

Back to top button