پاک فوج کا افغانستان کو منہ توڑ جواب دینا ضروری کیوں تھا؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار عامر خاکوانی نے کہا ہے کہ پاکستانی فوج کی جانب سے افغان طالبان حکومت کی شر پسندی کا منہ توڑ جواب دینا ناگزیر تھا چونکہ اب مسئلہ پاکستان کی سلامتی کا بن گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ماضی کی طرح کسی عالمی طاقت کی خاطر افغانستان پر حملے نہیں کیے بلکہ اس نے اپنے دفاع، خود مختاری اور داخلی امن کو یقینی بنانے کے لیے ایسا کیا۔
عامر خاکوانی اپنے تجزیے میں کہتے ہیں کہ افغان طالبان کو سمجھنا ہوگا کہ ان کی پاکستان دشمن پالیسیاں ان کی اپنی کمزوری، معاشی تباہی اور بین الاقوامی تنہائی کا باعث بنیں گی۔ اگر پاکستانی فوج نے افغان حملوں کا منہ توڑ جواب دیا ہے تو ایسا کرنا ناگزیر تھا، کیونکہ پاکستان کی سلامتی کا مسئلہ بن چکا ہے۔ سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ پاک افغان کشیدگی دراصل ایک گہرا اور پیچیدہ مسئلہ ہے جسکی جڑیں تاریخی، جغرافیائی اور سیاسی محرکات میں پوشیدہ ہیں۔ اس تنازعے کو سمجھنے کے لیے چند بنیادی حقائق کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
ان کے مطابق سب سے پہلی اور بڑی وجہ تحریک طالبان ہے۔ ان دہشت گردوں نے پاکستان میں سینکڑوں حملے کیے، جن میں فوجی جوان، افسران اور عام شہری شہید ہوئے۔ یہ گروہ اس وقت افغانستان میں آزادانہ سرگرم ہے، جہاں اسے افغان طالبان حکومت کی پناہ، مالی مدد اور لاجسٹک سپورٹ بھی حاصل ہے۔ کابل، کنڑ، پکتیکا اور ننگرہار جیسے علاقوں میں ٹی ٹی پی کے جہادی کیمپ اور سیف ہاؤسز موجود ہیں جن میں سے کئی ایک کو حالیہ حملوں میں ٹارگٹ بھی کیا گیا ہے۔ اگر افغان حکومت واقعی غیر جانب دار ہوتی تو یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ ٹی ٹی پی کا سربراہ نورولی محسود کابل میں بم پروف گاڑی میں آزادانہ گھومتا۔ یاد رہے کہ اس سے نشانہ بنانے کے لیے پچھلے ہفتے پاک فضائیہ نے کابل پر حملے بھی کیے تھے۔
عامر خاکوانی کے مطابق دوسری بڑی وجہ سرحدی حساسیت ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2600 کلومیٹر سے زائد طویل سرحد ہے، جس کے کئی مقامات پر دراندازی آسان ہے۔ پاکستان کی جانب پاک افغان سرحد پر خاردار باڑ لگانے کے باوجود طالبان دہشت گرد گروہ پہاڑی راستوں سے داخل ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ راستے ہیں جہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کی بڑی کارروائیاں کی جا رہی ہیں اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کو خاص کر ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔
سینیئر صحافی کے مطابق تیسری وجہ افغان طالبان کا رویہ ہے۔ پاکستان نے ان کی حکومت کو دنیا میں تسلیم کرانے کی کوشش کی، تجارت کے دروازے کھولے، کوئلے کی درآمد پر رعایت دی، مگر افغان طالبان حکومت نے الٹا پاکستان کے خلاف محاذ کھول دیا۔ انہوں نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے اپنے کوئلے کی قیمتیں دوگنا کر دیں تاکہ اسلام آباد کو معاشی نقصان پہنچے۔
چوتھی وجہ افغانستان کی طالبان حکومت پر بھارت کا تیزی سے بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ہے۔ بھارت نے افغانستان میں سرمایہ کاری، انٹیلی جنس نیٹ ورک اور سفارتی تعلقات کے ذریعے مضبوط جڑیں بنا لی ہیں۔ اب بھارتی فنڈنگ کے بل پر کچھ افغان گروہ پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں جن میں تحریک طالبان پاکستان سر فہرست ہے۔ افغان طالبان کے بعض حلقے بھی بھارتی رابطوں کے زیر اثر ہیں اور پاکستان دشمن بیانیہ اپنائے ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ چند روز پہلے جب افغان طالبان نے پاکستانی سرحدی چوکیوں پر حملے کیے گئے تب افغان وزیر خارجہ بھارت میں موجود تھے۔
پانچواں نکتہ پاکستان کی جانب سے امریکی جنگ لڑنے کا بیانیہ ہے، جسے عامر خاکوانی مکمل طور پر غلط قرار دیتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کی اپنی جنگ ہے، کیونکہ حملے امریکی فوج پر نہیں بلکہ پاک افواج اور شہریوں پر ہو رہے ہیں۔ امریکا کا اس جنگ میں کوئی عملی نقصان نہیں ہو رہا، ویسے بھی امریکہ کو دوبارہ افغانستان میں دوبارہ الجھنے کا کوئی شوق نہیں۔
چھٹا سبب یہ ہے کہ پاکستان اور تحریک طالبان کے مابین پچھلے چند برسوں میں ہونے والے تمام مذاکرات ناکام ہو چکے ہیں، اس دوران چین کی ثالثی بھی ہوئی، مگر افغان حکومت نے کبھی مخلصانہ رویہ اختیار نہیں کیا۔ سینیئر صحافی کے مطابق مذاکرات تب ہی کامیاب ہوتے ہیں جب دونوں فریقین سنجیدگی دکھائیں، لیکن کابل کے حکمرانوں کی نیت ہی واضح نہیں۔ ساتواں نکتہ علاقائی صورتحال ہے۔ افغانستان کے تقریباً تمام ہمسایہ ممالک بشمول ایران، چین، روس اور ازبکستان طالبان حکومت سے ناخوش ہیں۔ ایران کے مطابق افغانستان سے آنے والے دہشت گرد ان کے خلاف کارروائیوں میں ملوث ہیں، چین کو اپنے سرمایہ کاری منصوبوں پر خدشات ہیں، اور روس بھی ماسکو فارمیٹ اجلاسوں میں طالبان سے شکایت کرتا رہا ہے۔
عامر خاکوانی کے مطابق آٹھواں نکتہ یہ ہے کہ افغانستان میں موجود دہشت گرد گروپس نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ لیکن طالبان حکومت نے انہیں قابو کرنے کی بجائے انہیں پناہ اور دی اور انکی فنڈنگ کی، جس سے افغانستان عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔
