کیا سپریم کورٹ 5 عمرانڈو ججز کے حق میں فیصلہ دے گی؟

سپریم کورٹ میں گروپنگ اور تقسیم کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی بغاوت پھوٹ پڑی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 عمراندار ججز نے لاہور ہائی کورٹ سے ٹرانسفر ہو کر آنے والے جسٹس سرفراز ڈوگر کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ بننے سے روکنے کے لیے آخری حد تک جانے کا اعلان کر دیا ہے۔ جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی سنیارٹی کا معاملہ نیا رخ اختیار کر گیا ہے اسلام آباد ہائیکورٹ کے5 یوتھیے ججز نے ججز سنیارٹی کے معاملے پر سابق چیف جسٹس عامر فاروق کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے قانون جنگ لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز نے حال ہی میں سپریم کورٹ میں ترقی پانے والے سابق چیف جسٹس عامر فارق کےسنیارٹی بارے ریپریزنٹیشن مسترد کرنے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے اس حوالے سے سینئر وکلا منیر اے ملک اور بیرسٹر صلاح الدین کی خدمات حاصل کی ہیں۔سپریم کورٹ میں 49 صفحات پر مشتمل آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت درخواست منیر اے ملک اور بیرسٹر صلاح الدین کے توسط سے ہی دائر کی گئی ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ سپریم کورٹ قرار دے کہ صدر کو آرٹیکل 200 کی شق ایک کے تحت ججز کے تبادلے کے لامحدود اختیارات نہیں ہیں، مفاد عامہ کے بغیر ججز کو ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ ٹرانسفر نہیں کیا جا سکتا۔ دائر درخواست میں مزید استدعا کی گئی ہے کہ مختلف ہائیکورٹ سے اسلام آباد آنے والے تینوں ججز کو کام سے روکا جائے جبکہ جسٹس سرفراز ڈوگر کو بھی قائم مقام چیف جسٹس کے طور پر خدمات انجام دینے سے فوری روکا جائے۔
واضح رہے کہ جسٹس سرفراز ڈوگر کو سنیارٹی میں سینئر پیونی جج تعینات کرنے کیخلاف 5 ججز نے ریپریزنٹیشن فائل کی تھی۔ جسےسابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے مسترد کر دیا تھا۔، سابق چیف جسٹس عامر فاروق نے سپریم کورٹ میں ترقی سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ یوتھیے ججز کا سنیارٹی بارے موقف مسترد کرتے ہوئے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیاتھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے تفصیلی فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 200 کا حوالہ دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ صدر پاکستان کو ایک جج کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں تبادلہ کرنے کی اجازت دیتا ہے، بشرطیکہ تبادلہ جج کی رضامندی اور چیف جسٹس آف پاکستان اور متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس سے مشاورت کے بعد کیا جائے۔ اس لئے ججز کا دیگر عدالتوں سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلہ آئینی طور پر درست ہے، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نئی تقرری یا وصول کنندہ عدالت میں جج کی سنیارٹی میں تبدیلی کی جائے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین کے تحت کسی جج کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں منتقلی پر نیا حلف لینے کی ضرورت نہیں ہے، ایک بار جب کوئی جج اپنی اصل ہائی کورٹ میں اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیتا ہے، تو اس حلف کا اطلاق تبادلے پر ہوتا رہتا ہے، لہٰذا، پچھلی ہائی کورٹ میں جج کے پاس جو سنیارٹی تھی، اسے سنیارٹی لسٹ میں اپنی پوزیشن کو تبدیل کیے بغیر نئے ہائی کورٹ میں لے جانا چاہیے۔انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ ایک بار کسی جج کی تقرری اور حلف لینے کے بعد اس کی مدت ملازمت ریٹائرمنٹ کی عمر تک جاری رہتی ہے، یا جب تک کہ انہیں ہٹا کر سپریم کورٹ میں ترقی نہیں دی جاتی یا ان کا انتقال نہیں ہوجاتا۔فیصلے میں واضح طور پر کہا گیا کہ تبادلہ ایک طریقہ کار کا معاملہ ہے، جو جج کی بنیادی حیثیت یا سنیارٹی کو تبدیل نہیں کرتا، اس طرح، نظر ثانی شدہ سنیارٹی لسٹ، جس میں ججوں کو کم رینک میں رکھا گیا تھا، کو آئینی دفعات کے مطابق جائز ٹھہرایا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کا منصوبہ بنارکھا ہے۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس وقت عمرانڈو ججز کی اکثریت ہے جو تحریک انصاف کی قیادت کو مسلسل ریلیف فراہم کر رہے ہیں۔ چنانچہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں انتظامی طور پر بڑی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں تاکہ یہ سلسلہ روکا جا سکے انھی تبدیلیوں کے تحت جہاں جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا قائمقام چیف جسٹس مقرر کیا جا چکا ہے وہیں دوسری جانب جسٹس محسن کیانی کی جگہ جسٹس سرفراز ڈوگر کو انسدادِ دہشت گردی اور احتساب عدالتوں کا انتظامی جج تعینات کر دیا گیا ہے۔ جس کے بعد اب 9 مئی کی دہشت گردی اور 190 ملین پاونڈز کرپشن کیس میں سزا پانے والوں کی اپیلوں کا مستقبل جسٹس سرفراز ڈوگر کے ہاتھ میں ہوگا۔
واضح رہے کہ یکم فروری کو لاہور، سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹ سے ایک، ایک جج کا تبادلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں کر دیا گیا تھا۔نوٹی فکیشن کے مطابق جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کا لاہور ہائی کورٹ، جسٹس خادم حسین سومرو کا سندھ ہائی کورٹ اور جسٹس محمد آصف کا تبادلہ بلوچستان ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیا گیا تھا۔ اس کے اگلے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں انتظامی کمیٹی تبدیل کردی گئی تھی، اس وقت کے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق عدالت کی انتظامی کمیٹی کے چیئرمین مقرر ہو گئے تھے۔اسی طرح سینئر پیونی جج جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس خادم سومرو کو ممبران مقرر کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ جن تین ججز کو اسلام آباد ہائی میں ٹرانسفر کیا گیا ہے ان ججز میں جسٹس سردار سرفراز ڈوگر سب سے سینیئر ہیں۔ جسٹس سردار سرفراز ڈوگر 2015 سے لاہور ہائی کورٹ میں تعینات ہیں۔اسلام آ باد ہائی کورٹ میں ان کی ٹرانسفر کی وجہ سے صرف ایک جج کی سنیارٹی متاثر ہوئی ہے اور وہ جسٹس محسن اختر کیانی ہیں۔
سردار سرفراز ڈوگر چیف جسٹس کے بعد اب سب سے سینیئر جج بن گئے ہیں اس سے پہلے جسٹس محسن اختر کیانی سب سے سینیئر جج تھے۔ اس کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے کسی بھی جج کی سنیارٹی مثاثر نہیں ہوئی کیونکہ جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس آصف کی تعیناتی سنہ 2023 میں عمل میں لائی گئی تھی۔