مجھ سے معافی کا مطالبہ کرنے والے خود معافی مانگیں


سات ماہ سے بغاوت کے مقدمے میں گرفتار پشتون تحفظ موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی علی وزیر نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے نام ایک کھلا خط لکھتے ہوئے کہا ہے کہ انشاءاللہ تاریخ میری سچائی ثابت کرے گی! اپنے خط میں علی وزیر نے لکھا ہے کہ مجھے سات ماہ کی قید کے بعد پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس میں شرکت کے لئے عارضی رہائی دی گئی۔ اِس دوران مجھے سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ گزشتہ دنوں پارلیمنٹ کے اراکین کو قومی سلامتی پر اِن کیمرہ بریفنگ کے دوران کہا گیا کہ اگر میں آپ سے معافی مانگ لوں، تو تب ہی مجھے رہائی ملے گی! لہازا میں سوال کرتا ہوں کہ کیا اسکا یہ مطلب نہیں کہ سرحدوں کی حفاظت کے ذمہ دار ادارے نہ صرف سیاسی و عدالتی معاملات میں مداخلت کر رے ہیں بلکہ پارلیمنٹ اور عدلیہ کو بھی کنٹرول کرتے ہیں اور انکے فیصلوں پہ اثر انداز ہوتے ہیں؟
علی وزیر نے اپنے خط میں لکھا کہ پہلی بات تو یہ ھے کہ مجھ سے معافی مانگنے کا مطالبہ کرنا ہی اِس تلخ حقیقت کا اعتراف ھے کہ اس ملک میں حکمرانی، جزا و سزا کا اختیار کس کے پاس ہے اور کون لوگ مجھے بار بار زندانوں میں ڈلواتے ہیں؟ یہ مطالبہ قطعا َغیر جمہوری، غیر آئینی، اورغیر قانونی ھے۔
جمہوریت میں حاکمیت اعلیٰ جمہور اور ُان کے منتخب نمائندوں کے پاس ہوتی ھے، وہی آئین کے خالق ہوتے ہیں۔ پاکستان کا آئین ہر شہری کو اپنے ریاستی اداروں اور انکی پالیسیوں پر تنقید کرنے اور سوالات اٹھائے کا حق دیتا ہے۔ اسی طرح ریاستی نظام اور پالیسیاں بنانے او بدلنے کا آئینی حق صرف عوام کے منتخب نمائندوں کے پاس ہوتا ھے۔ آئین اور قانون کی تشریح کا اختیار عدلیہ کے پاس ہوتا ھے، لہازا سوال یہ بنتا یے کہ ریاست کے ایک محکمے کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ کسی کی سزا اور جز ا کے بارے میں فیصلہ کرے یا ایسا کرنے کا تاثر دے؟ اگر کسی محکمے نے یہ حقوق اور اختیارات سلب کئے رکھنے ہیں، اور سزا اور جزا کےفیصلوں کا اختیار اپنے ہی پاس رکھنا ہے، تو پھر یہ ایک منتخب پارلیمینٹ اور عدلیہ کے وجود پر بہت بڑا سوال ھے۔
علی وزیر اپنے خط میں مزید لکھتے ہیں کہ رہی یہ بات کہ مجرم کون ھے اور غدار کون ھے تو اس بارے میں عظیم انقلابی رہنما فیڈل کاسترو کا تاریخی قول یاد رکھنا چاہئیے کہ کہ تاریخ میری سچائی ثابت کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ یہ فیصلہ بھی کرے گی کہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کس نے کی اور معافی کس کو مانگنی چاہیئے؟ علی وزیر نے اپنے خط میں لکھا کہ جیل میں میری زندگی کو جان لیوا خطرات لاحق ہیں لیکن میرے لیے وہ سوالات اہم ہیں جو ہمارے سماج کو درپیش ہیں اور اجن پر آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ انہوں نے سوال۔کیا کہ آپ ایسی کتنی آوازوں کو دبائیں گے؟ وقت آ گیا ہے کہ ان آوازوں کو دبانے کے بجائے پارلیمینٹ کو اِنکے جوابات ڈھوندنے دیں۔ اِنکا حل ضروری ہے۔ جمہور کی حقِ حکمرانی، فیصلہ سازی کا حق اور آئین کی بالا دستی کے بارے میں سوچیں۔ ان مقاصد۔کے حصول کے لیے میری جدجہد تو جاری رھے گی۔
علی وزیر کا کہنا ہے کہ ایک اہم سوال یہ ھے کہ پچھلے چالیس سال سے جاری سامراجی جنگ کے نتیجے میں تباہی کے دہانے پر پہنچنے والے پاکستان کو کیسے بچانا ہے؟ اس جنگ کے اخراجات کی وجہ سے ہونے والے بجٹ خسارے پورے کرنے کے لئے پاکستان سامراجی قرضوں میں مزید دھنستا جا رہا ہے۔ افغانستان سے فوجی انخلاء کے بعد بغلیں بجانے کی بجائے ہمیں ملک کو درپیش گھمبیر مسائل کے حل کے بارے میں سوچنا ہو گا۔ ملک میں ایک اور’ سِو ل وار’ شروع ہونے کو ہے، جس کا حل ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ بنیادوں پر تجارتی اور سفارتی تعلقات استور کرنے میں ہے، نہ کہ پراکسی جنگجوں میں۔خطرہ یہ ہے کہ ہماری دوغلی خارجہ پالیسی ہی ملک کو مزید لے ڈوبے گی۔
خطے میں نئی معاشی اور سٹرٹیجک صف بندی، اور امریکہ اور چین کے درمیان رسہ کشی میں پاکستان کے پھنس جانے، نیا عالمی میدان جنگ بن جانے، اور نئی سرد جنگ شروع ہونے سے پاکستان کو شدید مشکلات کا سامنا ھے۔
علی وزیر نے آرمی چیف کے نام اپنے کھلے خط میں لکھا کہ ان سب معاملات پر جمہوری فیصلے کرنا ہونگے اور پارلیمینٹ سے باھر چھاؤنیوں میں کئے گئے غلط فیصلوں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی!
علی وزیر نے اپنے خط کا اختتام فیض احمد فیض کے اس شعر پر کیا:
نثارر میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں چلی ھے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے

Back to top button