کیا الیکشن سے پہلےبلا دوبارہ PTIسے چھننے والا ہے؟

آئندہ عام انتخابات سے قبل ہی تحریک انصاف کی خوشیاں ماتم میں بدلنے والی ہیں۔ بلے کی واپسی بارے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے پر لڈیاں ڈالنے والے عمرانڈوز کے جلد واویلا کرنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جلد تحریک انصاف کو دوبارہ ملنے والا بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا جائے گا کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بلے کا نشان بحال کرنے کے حوالے سے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے پر انٹرا کورٹ اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے جاری ہونے والے فیصلے پر مشاورت کے بعد قانونی ماہرین سے مشاورت کی جو مکمل ہوگئی۔مشاورت مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔الیکشن کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پشاور ہائیکورٹ نے انٹرا کورٹ اپیل پر ریلیف نہ دیا تو پھر دوسرے مرحلے میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔
دوسری جانب دنیا نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے میں سیاسی اور قانونی محاذ پر ایسی پیشرفت ہوئی کہ منظر نامہ بدل کر رہ گیا، ملکی سیاست بلے کے نشان کے مستقبل کے گرد گھومنے لگی ہے۔
تحریک انصاف سے انتخابی نشان واپس لیے جانے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو ابھی چند روز ہی گزرے تھے کہ پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے تحریک انصاف کو’’ بلا‘‘ واپس دینے کا حکم دے دیا، پشاور ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا ووٹرز کی حق تلفی ہے، بلے کے نشان کی بحالی نے جہاں تحریک انصاف کی حریف جماعتوں کو پریشانی میں مبتلا کر دیا وہیں سیاسی حلقوں میں ایک مرتبہ پھر یہ بحث شروع ہو چکی ہے کہ ایسے میں انتخابات کی کیا صورتحال ہو گی؟
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے انتخابات کو پتھر پر لکیر قرار دیا گیا اور عدالت نے ریٹرننگ افسران کی تقرری سے متعلق کیس میں آبزرویشنز اور فیصلہ دے کر یہ ثابت بھی کیا کہ وہ اپنے فیصلے پر ہر صورت عملدرآمد کرائے گی، سپریم کورٹ کا فیصلہ اپنی جگہ مگر سیاسی میدان میں دو وجوہات کی بنیاد پر یہ دلیل دی جا رہی تھی کہ عام انتخابات ہو کر رہیں گے، میاں نواز شریف کی 21 اکتوبر کو جس انداز میں وطن واپسی ہوئی اور پے در پے ان کے کیسز کا خاتمہ ہوا ‘ اسے واضح اشارے کے طور پر دیکھا جا رہا تھا کہ نہ صرف انتخابات ہونے جا رہے ہیں بلکہ میاں نواز شریف کو مسندِ اقتدار پر بٹھانے کے لیے راہ بھی ہموار کی جا رہی ہے۔
مسلم لیگ (ن) تو خود یہ تاثر دیتے نہیں تھکتی تھی کہ’ ساڈی گل ہو گئی اے‘ یعنی ہماری بات ہو گئی ہے کہ میاں نواز شریف ہی آئندہ وزیر اعظم ہوں گے، (ن) لیگ کے ساتھ ہونے والے برتاؤ اور ان کے اعتماد کو دیکھ کر دیگر سیاسی جماعتوں نے لیول پلینگ فیلڈ کے سوالات بھی اٹھائے، اس کے باوجود انتخابات کے انعقاد پر شک و شبہ رکھنے والوں نے اس وقت اپنی سوچ تبدیل کرنا شروع کر دی جب گزشتہ ہفتے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے تحریک انصاف سے بلے کا انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ صادر کیا گیا۔
اگر کسی سیاسی جماعت کے پاس انتخابی نشان نہ ہو تو اس کا مطلب اس کا انتخابات سے واضح طور پر باہر ہونا ہے، یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں کیلئے ترجیحی فہرست بھی تاحال قبول نہیں کی، الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے بعد تحریک انصاف کی حریف سیاسی جماعتوں کیلئے میدان خالی ہوگیا، تحریک انصاف پشاور ہائیکورٹ پہنچی اور بڑا ریلیف لے لیا، پی ٹی آئی کے سیاسی حریفوں کا خیال تھا کہ سابق حکمران جماعت کے پاس ایک تو تگڑے امیدوار نہیں ہوں گے اور جو امیدوار میدان میں ہوں گے ان کے پاس انتخابی نشان نہیں ہوگا، یوں انتخابات کے دوران تحریک انصاف ان کیلئے درد سر نہیں بن سکے گی۔
تاہم پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد اب نامزد امیدواروں کے پاس انتخابی نشان بلا بھی ہوگا، انتخابی نشان الاٹ کرنے کیلئے انتخابی شیڈول کے مطابق 13 جنوری تک کا وقت ہے جبکہ پشاور ہائیکورٹ میں ڈویژنل بنچ 9 جنوری کو بلے کے انتخابی نشان سے متعلق کیس کی تفصیلی سماعت کرے گا۔بلے کا نشان بیلٹ پیپر پر موجود رہا تو سیاسی پنڈتوں کے 8 فروری کے انتخابات سے متعلق دعوؤں کو بڑا دھچکا لگ سکتا ہے۔