9 مئی کے حملوں میں ملوث 50 منتخب PTI اراکین کی فراغت کا خطرہ

9 مئی کے ملزمان بالآخر اپنے انجام کو پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔ان میں تحریک انصاف کے وہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی بھی شامل ہیں جو 9مئی کو فوجی تنصیبات پر حملے میں شریک تھے۔ اگر ان منتخب اسمبلی اراکین کو سزائیں ہوتی ہیں تو قومی و صوبائی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی عددی طاقت مزید کم ہو جائے گی۔
قانونی ماہرین کے مطابق 9مئی کے کیسز کے حوالے سے سپریم کورٹ کی دی گئی ڈیڈ لائن قریب آنے کی وجہ سے پی ٹی آئی قیادت کو شدید قانونی اور سیاسی دباؤ کا سامنا ہےکیونکہ نومئی مقدمات میں پی ٹی آئی کے متعدد کارکنان کے علاوہ 52 اراکین قومی اسمبلی بھی نامزد ہیں۔ مختلف اراکین اسمبلی کو ان مقدمات کے نتیجے میں ممکنہ سزاؤں اور نااہلی کے خدشات نے نہ صرف پی ٹی آئی کی پارلیمانی پوزیشن کو خطرے میں ڈال دیا ہے بلکہ اس کے سیاسی مستقبل پر بھی سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔ اس سیاسی اور عدالتی کشمکش نے ملک میں ایک نئی سیاسی ہلچل پیدا کر دی ہے، عدالتی فیصلوں کی وجہ سے پی ٹی آئی کی سیاست کا دھڑن تختہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل امجد حسین شاہ کا کہنا ہے کہ ’9مئی کے مقدمات میں جن پی ٹی آئی ایم این ایز کو سزائیں سنائی جائیں گی انہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان نااہل قرار دینے کا پابند ہو گا اور یہ نااہلی پانچ سال کے لیے ہو گی۔ تاہم سزا کی صورت میں ملزمان کو فیصلوں کے خلاف 30 دن میں اوپر والی عدالت میں اپیل کا حق ہوتا ہے۔‘امجد حسین شاہ کے مطابق ’تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کو اگر عدالتوں سے نومئی کے کیسوں میں سزا ہوئی اور سپریم کورٹ تک اپیل بھی منظور نہ ہوئی تو ان کے لیے بڑی مشکل کھڑی ہو سکتی ہے۔ ایک تو اس وقت پارٹی رہنماؤں میں اختلافات شدت اختیار کر رہے ہیں۔ دوسرا پارٹی میں فیصلہ سازی کا کوئی واضح مرکز دکھائی نہیں دیتا۔ ہر معاملہ اڈیالہ جیل ملاقات کا محتاج ہوتا ہے۔ اگر اتنی بڑی تعداد میں ایم این ایز نااہل ہوئے تو وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ ’لہذا ان کی جگہ لینے کے لیے پارٹی میں ٹکٹوں کی نئی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ پارلیمان میں بھی تعداد کم ہونے سے اپوزیشن کی پوزیشن کمزور ہو جائے گی۔ عددی کمی کی وجہ سے پی ٹی آئی دوسری اپوزیشن جماعتوں سے اپنے فیصلے منوانے کی پوزیشن میں نہیں رہے گی۔ جس کے بعد پی ٹی آئی کا پارلیمنٹ کے اندر ٹھکنا یقینی ہو جائے گا۔‘
تاہم پی ٹی آئی سے وابستہ وکلاء کے مطابق ’قانونا الیکشن کمیشن حتمی طور پر کسی رکن اسمبلی کو سزا کی صورت میں اپیل کی مدت تک اور سپریم کورٹ سے اپیلوں پر حتمی فیصلے تک نااہل نہیں کر سکتا۔‘پی ٹی آئی وکلاء کے بقول، ’اگر دہشت گردی کی عدالتوں نے نامزد پی ٹی آئی کے ایم این ایز کو سزا سنا بھی دی تو بھی الیکشن کمیشن انھیں فوری نااہل نہیں کر سکے گا۔ کیونکہ اس فیصلے کو پہلے ہائی کورٹ پھر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ لہذا قانونی طور پر فوری ڈی سیٹ کرنا غیر قانونی ہو گا۔ لہذا تحریک انصاف کے پاس قانونی طور پر کئی آپشنز ہوں گے۔
عدالتی فیصلہ: صوبائی اسمبلیوں میں بھی حکومتی اتحاد کو فائدہ
خیال رہے کہ‘ انسداد دہشت گردی کی عدالت اسلام آباد نو مئی تھانہ رمنا حملے کے مقدمے میں 30 مئی کو پاکستان تحریک انصاف کے ایم این اے عبد الطیف سمیت 11 ملزمان کو مجموعی طور پر 15 سال چار ماہ قید اور جرمانے کی سزا سنا چکی ہے۔ اسی طرح لاہور سمیت کئی شہروں میں بھی کیسوں کی سماعت حتمی مراحل میں پہنچ چکی ہے۔ مبصرین کے مطابق 9مئی کے مختلف کیسز میں پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت سمیت اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور پارٹی عہدیداران نامزد ہیں۔ ان مقدمات پر عدالتوں سے فیصلوں کی صورت میں کئی ایم این ایز نااہل بھی قرار دیے جانے کا امکان ہے۔ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کے خلاف اسلام آباد اور لاہور میں نو مئی کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔ اسی طرح سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر بھی مردان میں نومئی واقعات کے مقدمہ میں نامزد ہیں۔ زرتاج گل ڈیرہ غازی خان، عامر ڈوگر ملتان اور زین حسین قریشی لاہور میں نو مئی کے مقدمات میں نامزد ہیں۔ فیصل آباد سے علی افضل ساہی کو بھی فیصل آباد میں نومئی کے مقدمات میں نامزد کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کے خیبر پختونخواہ اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے اکثر ممبران قومی اسمبلی دہشت گردی جیسے مقدمات میں نامزد ہیں۔پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق اگر عدالتوں کی جانب سے 9 مئی کے مقدمات میں پی ٹی آئی کی مرکز لیڈر شپ کو سزائیں سنا دی جاتی ہیں تو پی ٹی آئی کا اسمبلیوں میں اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا کیونکہ مخصوص نشستوں کا فیصلہ پی ٹی آئی کے خلاف آنے کے بعد پہلے ہی قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کا عملا صفایا ہو گیا ہے۔