کیا عمران آرمی چیف جنرل عاصم پر دباؤ صلح کیلئے ڈال رہاہے؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ جیل میں قید سابق وزیراعظم عمران خان اس وقت شدید کنفیوژن کا شکار ہیں، اسی لیے ایک جانب وہ خود کو شیخ مجیب الرحمن سے تشبیہ دیتے ہوئے موجودہ سپہ سالار کا موازنہ جنرل یحیی خان سے کر رہے ہیں اور دوسری جانب جنرل قمر جاوید باجوہ کو تمام خرابیوں کا ذمہ دار قرار دے کر جنرل عاصم منیر کی جانب سفید جھنڈا بھی لہرا رہے ہیں۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ کپتان کے حوالے سے حالیہ تنازعہ ایک انٹرویو سے شروع ہوا۔ لیکن مہدی حسن نامی صحافی کو دیا گیا یہ انٹرویو بالمشافہ ملاقات میں نہیں ہوا تھا۔ مہدی حسن نے لکھے ہوئے سوالات قیدی نمبر 804 کو کسی طرح پہنچا دیے۔ قیدی نے ان کے جواب لکھے یا اپنے کسی ملاقاتی کو لکھوائے۔ جب جواب تیار کر کے مہدی حسن کو بھجوائے گئے تو تنازعہ شروع ہو گیا۔ نصرت جاوید کہتے ہیں کہ تفصیلات میں الجھنے کے بجائے اس انٹرویو کے کلیدی پیغام پر توجہ دیتے ہیں۔ میری دانست میں ”کلیدی پیغام“ اس سوال کے جواب میں موجود ہے جو مہدی حسن نے سادہ ترین الفاظ میں پوچھا تھا۔ وہ جاننا چاہ رہا تھا کہ بقول عمران خان کے ”دہشت گردوں کے لئے مختص“ حصے میں رکھے قیدی نمبر 804 اپنی مشکلات کا حقیقی ذمہ دار کسے شمار کرتے ہیں۔ قائد تحریک انصاف کو اس سوال کا جواب دینے کے لئے تین نام بھی دیے گئے۔ ان کے ”سیاسی مخالفین“ کے علاوہ امریکہ اور پاک فوج کا نام بھی اس ضمن میں پیش ہوا۔ اپریل 2022ء سے سائفر کہانی کی بنیاد پر امریکہ کو پاکستان میں ”رجیم چینج“ کا ذمہ دار ٹھہرانے والے عمران خان نے مگر اپنے جواب میں یہ الزام فراموش کردیا۔ انہوں نے فوج کو بھی بطور ادارہ اپنی مشکلات کا ذمہ دار قرار دینے سے گریز کیا۔ خان نے صرف اور صرف قمر جاوید باجوہ کا نام لیا اور مصر رہے کہ ان کو مشکلات سے دوچار کرنے والی گیم قمر جاوید باجوہ ہی نے نہایت ”باریک بینی“ سے لگائی تھی۔

متنازع ٹوئٹ: عمران خان کا شامل تفتیش ہونے سے ایک بار پھر انکار

 

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ قمر جاوید باجوہ کو ذمہ دار ٹھہرانے والے حصے کو میں نے تین بار غور سے پڑھا۔ عاشقان عمران سے جان کی امان پاتے ہوئے عرض کروں گا کہ اس حصے کو پڑھتے ہوئے میرے ذہن میں انگریزی کا ایک لفظ آیا اور وہ تھا “Damage Control” یہ لفظ اس خواہش کیلئے استعمال ہوتا ہے جو آپ کسی غلطی کے ازالے کیلئے بروئے کار لا تے ہیں۔ میرے ذہن میں آئے خیال کو رد یا قبول کرتے ہوئے آپ کو یاد رکھنا ہوگا کہ چند ہی روز قبل عمران خان سے منسوب ایک پیغام سوشل میڈیا پر مقبول ترین رہا۔ بانی تحریک انصاف نے حمود الرحمن کمیشن کی یاد دلائی جو 1970ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے مشرقی پاکستان کی ہم سے جدائی کے اسباب ڈھونڈنے کیلئے تشکیل دیا تھا۔لیکن سارا فوکس جنرل یحییٰ کی ذات اور فیصلوں پر توجہ مرکوز رکھنے کی وجہ سے حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کی بدولت سازشی داستان یہ پھیلی کہ وہ فوجی آمر نہ صرف اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ ذاتی حوالوں سے سنسنی خیز حد تک قومی بحران کے سنگین ترین دنوں میں بھی مغل حکمران محمد شاہ رنگیلا کی طرح کامل عیاشی میں مصروف رہا۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ میں اس سوال کا جواب ابھی تک ڈھونڈ نہیں پایا کہ مئی 2024ء کے آخری ہفتے میں عمران خان کو 1970ء کی دہائی میں قائم ہوئے حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کی یاد کیوں ستائی اور وہ اس کا حوالہ دیتے ہوئے ”غدار کون؟“ والا سوال اٹھانے پر مجبور کیوں ہوئے۔ یہ سوال اٹھاتے ہوئے کپتان نے اپنی تصویر کے ساتھ ریاست کے ایک طاقتور ترین منصب دار کی تصویر چسپاں کرنا بھی کیوں ضروری محسوس کیا۔ لیکن وجہ جو بھی رہی ہو، قیدی نمبر 804 کے مداحین اور پرستاروں نے سوشل میڈیا پر ”عوامی مینڈیٹ کے منکر“ افراد اور اداروں کے خلاف مذمتی پیغامات کا طوفان برپا کردیا۔ یوں محسوس ہوا کہ ”دورِ حاضر کا شیخ مجیب“ عوام کو ریاستی قوت کے اجارہ داروں کے خلاف ”آخری معرکہ“ کے لئے تیار کر رہا ہے۔ نصرت جاوید کے بقول یہ پیغام اجاگر ہوا تو تحریک انصاف کے صدر بیرسٹر گوہر خان مدافعانہ انداز اختیار کرتے ہوئے یہ کہانی پھیلانے کو مجبور ہوئے کہ ان کے جیل میں قید ہوئے رہ نما کو اپنے سوشل میڈیا اکاﺅنٹس پر کامل کنٹرول میسر نہیں۔ لیکن وہ اس سوال کا جواب دینے سے قاصر رہے کہ اگر وہ درست ہیں تو خان کے پیغام کا اصل مصنف کون تھا۔ انگریزی محاورے والا “Damage” ہو گیا۔ میری دانست میں مہدی حسن کو دئے انٹرویو کے ذریعے بانی تحریک انصاف نے نقصان کے ازالے کی کوشش کی ہے۔ قمر جاوید باجوہ کو اپنی حکومت کے زوال اور موجودہ دنوں کی مشکلات کا یک و تنہا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے وہ فوج کی موجودہ قیادت کو سفید جھنڈا دکھاتے ہوئے مذاکرات کے طلب گار سنائی دئیے ہیں۔ لہازا دیکھتے ہیں کہ انہیں فوج سے کیا جواب ملتا یے۔

Back to top button