کیا مریم کی پنجاب حکومت کا بجٹ واقعی عوام دوست ہے؟

پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ مریم نواز کی وزارت اعلیٰ میں پیش کئے گئے پہلے باقاعدہ بجٹ کو تاریخ کا سب سے بڑا ٹیکس فری بجٹ قرار دیا جا رہا ہے۔پنجاب کے پانچ ہزار 446 ارب کے بجٹ میں میں روشن گھرانہ‘ کے علاوہ ’اپنی چھت اپنا گھر،‘ ’کھیلتا پنجاب،‘ ایگری کلچر مالز، لائیو سٹاک کارڈز، بلاسود ٹریکٹر، شرمپ فارمنگ سمیت مختلف سکیمیں شامل کی گئیں ہیں۔سرکاری ملازمین کی تنخواہیں وفاقی حکومت کی پیروی کرتے ہوئے 22 سے 25 فیصد بڑھانے کی تجویز ہے جبکہ پینشن میں بھی 15 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔

دوسری جانب جہاں حزبِ اختلاف نے بجٹ کو عوام دشمن قراردیا ہے وہیں حکومتی اتحادیپیپلز پارٹی نے بھی بجٹ تجاویز کی تیاری پر اعتماد میں لینے پر صوبائی بجٹ بارے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

صوبائی وزیر خزانہ مجتبیٰ شجاع الرحمٰن نے بجٹ تقریر میں اعلان کیا کہ پہلے مرحلے میں 100 یونٹس استعمال کرنے والے صارفین کو مکمل سولر سسٹم فراہم کیا جائے گا- 10ارب کی لاگت سے ’اپنی چھت اپنا گھر‘ پروگرام شروع کیا گیا ہے، پانچ لاکھ کسانوں کو 75 ارب کے قرض دیے جارہے ہیں۔ نو ارب کی لاگت سے چیف منسٹر سولرائزیشن آف ٹیوب ویلز پروگرام سے 7000 ٹیوب ویلز پر منتقل ہوں گے۔‘انہوں نے کہا کہ ’کسانوں کو 30 ارب کی لاگت سے بغیر سود ٹریکٹرز فراہم کیے جائیں گے، سوا ایک ارب کی لاگت سے ماڈل ایگری کلچر مالز کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے، جب کہ دو ارب کی لاگت سے لائیو سٹاک کارڈ کا اجرا کیا جا رہا ہے۔

تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ پنجاب حکومت کی جانب سے ٹیکس فری بجٹ کا اعلان کیا گیا ہے تاہم وفاقی حکومت کی جانب سے عوام پر عائد کردہ ٹیکسز کا اثر پنجاب کے عوام پر بھی پڑے گا جس کی وجہ سے عوام حقیقی ریلیف سے محروم رہینگے۔تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق ’پنجاب حکومت نے بےشک پہلے سے زیادہ مالیت کا بجٹ پیش کیا ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ خسارہ بھی پہلے سے بڑھا ہے۔ عوام کے لیے مشکلات اپنی جگہ برقرار ہیں اگرچہ صوبائی حکومت نے نئے ٹیکس نہیں لگائےمگر وفاقی بجٹ نے تنخواہ دار طبقے پر بوجھ ڈال کر پریشانی میں اضافہ کر دیا ہے۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’پنجاب حکومت نے کسانوں اور غریب طبقے کے لیے بجٹ میں اچھی تجاویز پیش کی ہیں، مگر لوگوں کا روزگار کا مسئلہ اور مہنگائی برقرار ہے، پہلا بجٹ پیش تو کردیا گیا لیکن اعلانات پر عمل درآمد ہونے تک نتائج کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔‘

سلمان غنی کے بقول ’حکومتی اخراجات کم کر کے محکموں کی کارکردگی میں اضافے کی عملی حکمت عملی واضح نہیں ہے۔ گورننس بہتر کر کے محکموں کی صلاحیتوں میں اضافہ کر کے لوگوں کو ریلیف کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگرچہ بجٹ اعداد وشمار کا گورکھ دھندہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن عوام تو مسائل کا حل چاہتی ہے جس کے لیے کارکردگی میں نمایاں بہتری لانا ہو گی۔‘انہوں نے کہا کہ ’صحت، تعلیم سمیت بنیادی ضروریات کے لیے بجٹ تو مختص ہوتا ہے مگر اس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچنے کا نظام بہتر کرنا ناگزیر ہے۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ بجٹ میں کیے گئے اعلانات سے عوام کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کے سنجیدہ اقدامات کرے۔‘

Back to top button