خیبر پختونخواہ میں زیادہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سیاسی ہے یا نہیں؟

خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے وفاق اور صوبے میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر ہونے والا پھڈا بڑھتا چلا جا رہا ہے اور حالت یہ ہو گئی ہے کہ کبھی تو کے پی کے وزرا اور کبھی وزیراعلی خود مرکزی گرڈ اسٹیشن پہنچ کر بجلی بحال کروانے  لگے ہیں۔  ایسے میں اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ علی امین گنڈا پور کی حکومت وفاق کے ہاتھوں کوئی بڑا نقصان نہ کروا بیٹھے۔

وزیراعلی علی امین گنڈاپور نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر خیبر پختون خواہ میں 12 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ختم نہ کی گئی تو وہ پورے پاکستان کو بجلی کی سپلائی معطل کر دیں گے اور مرکزی حکومت کو اٹھا کر باہر پھینک دیں گے۔ گنڈاپور نے یہ دھمکی چند روز قبل اپنے آبائی علاقے ڈیرہ اسماعیل خان کا دورہ کرتے ہوئے گرڈ سٹیشن جا کر خود بجلی بحال کروانے ہوئے دی۔ ان کا موقف تھا کہ کسی بھی علاقے میں 12 گھنٹے سے زائد لوڈ شیڈنگ نہیں ہونے دی جائے گی۔ علی گنڈا پور کے مطابق گرمی شروع ہوتی ہی صوبے بھر کے مختلف علاقوں میں عوام کو لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری جانب وفاقی حکومت کا موقف ہے کہ خیبر پختون خواہ میں موجود 1300 گرڈ اسٹیشنز میں سے صرف 156 گرڈ اسٹیشنز پر 2 سے سات گھنٹے روزانہ کی لوڈ شیڈنگ زیادہ ہے چونکہ وہاں پر بجلی چوری سب سے زیادہ ہے اور لوگ بل بھی ادا نہیں کرتے۔ حال ہی میں لوڈ شیڈنگ کے مسئلے پر گنڈاپور نے وزیر داخلہ محسن نقوی کی وساطت سے وفاقی  وزیر توانائی اویس لغاری سے بات چیت بھی کی تھی لیکن ابھی تک لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔

ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا خیبر پختونخوا کے کچھ علاقوں میں لوڈ شیڈنگ واقعی زیادہ ہے یا پورے صوبے میں ہی صورت حال ایک جیسی ہے۔ سوال یہ بھی یے کہ اگر کچھ علاقوں میں لوڈ شیڈنگ زیادہ ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ یہ کوئی نئی بات ہے یا گذشتہ ادوار میں بھی ایسا ہی ہو رہا تھا، یعنی ایسا کہیں سیاسی بنیادوں پر تو نہیں ہو رہا؟

خیبر پختونخوا کے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی یعنی پیسکو کو کم لائن لاسز یا نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہاں کے مکین باقاعدگی سے بجلی کے بل ادا کرتے ہیں۔ ان علاقوں میں لوڈ شیڈنگ نسبتاً کم ہوتی ہے مگر ایسے علاقے جہاں بجلی چوری کی وجہ سے زیادہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہاں لائن لاسز جیسے نقصانات بڑھ جاتے ہیں تو ایسے میں صوبے میں بجلی کی فراہمی کی ذمہ دار کمپنی لوڈ شیڈنگ کے دورانیے میں اضافہ کر دیتی ہے۔ یوں ان علاقوں میں باقاعدگی سے بل ادا کرنے والے لوگ بھی سخت گرم موسم میں اس انتقام کی ’چکی میں پِس‘ جاتے ہیں۔ ان کے گھر 22، 22 گھنٹے تک اندھیروں میں ڈوبے رہتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ وہ بل تو 24 گھنٹوں کا ادا کرتے ہیں مگر انھیں بجلی دو گھنٹے ہی دی جاتی ہے۔

صوبے کے دیہی علاقوں جیسے ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت، بنوں، قبائلی علاقے، بڈا بیر، متنی، کوہاٹ، ہنگو اور کرک میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ زیادہ ہے۔ پیسکو کے ایک اہلکار کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان سمیت قبائلی علاقوں اور صوبے کے جنوبی اضلاع میں امن عامہ کا مسئلہ بھی ہے۔ ان علاقوں میں واپڈا اور دیگر متعلقہ محکموں کے حکام شام کے بعد ادھر کا رخ بھی نہیں کر سکتے۔ ترجمان پیسکو کا کہنا ہے کہ شہری علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ چار سے چھ گھنٹے ہے جبکہ مضافاتی علاقوں میں 16 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔ ترجمان کے مطابق بجلی چوری اور واجبات کی عدم ادائیگی کے باعث لاسز زیادہ ہیں اور ایسے فیڈرز پر زیادہ لوڈ مینجمنٹ کرنا ناگزیر ہے۔

پیسکو حکام مطابق صوبے میں پیسکو کے 1300 سے زیادہ فیڈرز ہیں، جن میں سے 156 فیڈرز پر صرف دو گھنٹے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے۔ حکام کے مطابق 135 فیڈرز پر 20 سے 30 فیصد لاسز ہیں، جہاں چھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے جبکہ 96 فیڈرز ایسے ہیں، جن پر لاسز 30 سے 40 فیصد ہیں اور وہاں سات گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔ پیسکو کے مطابق 143 فیڈرزپر 40 سے 60 فیصد تک لاسز ہیں اور وہاں 12 گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے جبکہ 157 فیڈرز پر لاسز 60 سے 80 فیصد ہیں اور وہاں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 16 گھنٹے ہے۔ حکام کے مطابق 159 فیڈرز پر لاسز 80 فیصد سے زیادہ ہیں جس بنا پر 20 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جاری ہے۔

اسکے علاوہ نیپرا کی تازہ ترین رپورٹ سال 2022-23 کے مطابق خیبر پختونخوا میں بجلی چوری سے نقصانات باقی تمام صوبوں سے ذیادہ ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہاں بجلی چوری بھی سب سے زیادہ ہوتی ہے اور  بجلی کے بل ادا نہ کرنے والے بھی وہیں سب سے زیادہ بستے ہیں۔ سالانہ رپورٹ کے مطابق پیسکو یعنی پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی کو سالانہ 77 ارب کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ لہذا جب تک خیبر پختون خواہ میں بجلی چوری بند نہیں ہوگی وہاں لوڈ شیڈنگ کم ہونے کا بھی امکان نظر نہیں آتا۔ یہ امکان بھی ہے کہ علی امین گنڈا پور کی حکومت اسی معاملے پر وفاقی حکومت کے ہاتھوں کوئی بڑا نقصان نہ کروا لے۔ وفاقی حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر وزیراعلی گنڈا پور نے وفاق کے ساتھ پنگے بازی جاری رکھی تو صوبے میں گورنر راج نافذ ہونے کا امکان بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔

Back to top button