خدا نے دانیال طریر کی نظم کیوں نہیں پڑھی؟

تحریر : وجاہت مسعود۔۔۔۔۔۔بشکریہ : روزنامہ جنگ

مختار صدیقی نے لکھا، ’عشق کا نام نشان مٹائے کیسے کارگزاروں کا‘۔ سوال یہ ہے کہ عشق کے ہاتھوں مٹنا بھی کسے نصیب ہوتا ہے۔ کوئی عامی ہو یا نامور، ہست کی گرم بازاری سے نیست کی بے معنی خامشی تک بادِ فنا کا بے آواز اشارہ ہی کافی ہے۔ فلک کی پہنائیوں میں سرگرداں ان گنت ستاروں میں کون جل اٹھا، کب جل بجھا، کسے خبر ہوتی ہے۔ مختار صدیقی نے عشق کا نشان مٹنے کا شکوہ کیا تھا لیکن عشق ہی تو وجود کے تخلیقی اظہار کی وہ جہت ہے جو فنا کی تیز ہوا میں اپنا چراغ روشن رکھنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ اور یہ جانتے ہوئے کہ ’خواب جزیرہ بن سکتے تھے، نہیں بنے‘۔ یہ مصرع جوانمرگ شاعر دانیال طریر کی تراوش فکر تھا۔ 24فروری 1980کو بلوچستان کے قصبے لورا لائی میں پیدا ہونے والے دانیال طریر 31جولائی 2015ء کو رخصت ہو گئے۔ 35برس کی مختصر عمر میں شاعری کے پانچ مجموعے اور تنقید کی متعدد تصانیف سپرد قرطاس کیں۔ دانیال طریر کی ایک طویل نظم کا عنوان ہے، ’خدا مری نظم کیوں پڑھے گا؟‘۔ دانیال کی یہ نظم شعری روایت سے اس کے وجودی تعلق ہی کا نشان نہیں، ایک کائناتی خواب کا بیان بھی ہے۔ شاعر تو ’تنہا زیستن‘ کی دنیا کا باسی ہے جو کسی لمحہ کمیاب میں کھڑکی سے جھلک دے کر اپنا خواب بیان کرتا ہے اور گم ہو جاتا ہے۔ دانیال طریر نے اس نظم میں رفتگاں شعر سے کلام کرتے ہوئے اپنی حدود بیان کیں اور آئندگان سے ایسی نظم لکھنے کی امید باندھی جسے خدا بھی پڑھنے پر مجبور ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ شاعر کی مراد لفظوں سے بنی ہوئی نظم نہیں بلکہ ایسا نظم حیات ہے جو جنگ، تفرقے اور استحصال سے پاک ہو۔ ایسی نظم کوئی شاعر نہیں لکھتا، اس کارِ آسمان کیلئے ایسی قومیں درکار ہوتی ہیں جو اجتماعی بندوبست کے متناسب تارو پود سے فردکی سعی میں ارتفاع کا امکان پیدا کر دیں۔

پنجاب میں دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر شیخ وقاص اکرم پر مقدمہ درج

خبر یہ ہے کہ اہم محل وقوع، 25کروڑ آبادی، ساتویں طاقتور ترین فوج، ایٹمی صلاحیت اور نیم صنعتی معیشت کے باوجود ہمارا ملک عالمی سطح پر اپنی اہمیت کھو رہا ہے۔ گزری دہائیوں میں پاکستان کی بنیادی اہمیت چین، بھارت، ایران اور افغانستان سے جغرافیائی انسلاک تھا۔ امریکا کو افغانستان تک رسائی کیلئے پاکستان کی ضرورت تھی۔ اگست 2021کے بعد سے افغانستان میں امریکی دلچسپی ختم ہو چکی۔ یہ مردہ پرندہ اب پاکستان کے گلے میں آویزاں ہے۔ ہمسایہ ملک ایران تیل کی دولت کے باوجود پابندیوں اور عالمی تنہائی کا شکار ہے۔ سرمایہ کاری اور تجارت کی دنیا میں آگے بڑھتے خلیجی ممالک کو یورپ، بھارت اور چین سے تجارت کیلئے ایران یا پاکستان کی مدد درکار نہیں۔ وسطی ایشیا کا معاشی امکان محدود ہے نیز افغانستان میں عدم استحکام اور پاکستان میں بندرگاہ گوادر کی تعمیر میں سست روی کے باعث راہداری کے امکانات موہوم ہو رہے ہیں۔ بھارت کی پاکستان کے راستے وسطی ایشیا تک رسائی ماضی کا قصہ ہو چکی۔ بھارت کی پچانوے فیصد تجارت سمندر ی راستوں سے ہو رہی ہے۔ چاہ بہار کے باعث یہ صورتحال مزید تبدیل ہو جائے گی۔ پاکستان کے چین سے تعلقات نسبتاً بہتر ہیں لیکن چین کی آبادی اور صنعتی پیداوار کا بڑا حصہ مشرقی علاقوں میں واقع ہے جہاں سے بحرالکاہل کے راستے تجارت ہو رہی ہے۔ چین کی یورپ اور وسطی ایشیا سے بری تجارت کا بڑا حصہ قزاقستان اور روس کے راستے گزرتا ہے چنانچہ بیلٹ اینڈ روڈ اینی شی ایٹومیں سی پیک کی اہمیت محدود ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان، امریکا، روس اور مشرق وسطیٰ سے قریبی معاشی تعلقات پر مجبور ہے۔ اس کے دو سبب ہیں۔ پاکستان سیاسی، معاشی اور عسکری سطح پر چین کی بجائے مغرب کے زیادہ قریب ہے۔ دوسر ی طرف چین کی ترجیحات بھی جنوب مشرق میں امریکی بحری موجودگی نیز تائیوان، جاپان اور مشرق بعید کے باعث بحر الکاہل پر مرتکز ہیں۔ چین نے پاکستان کے ساتھ اقتصادی راہداری سے کئی گنا زیادہ سرمایہ کاری ایران کے ساتھ کی ہے جو اپنی تحدیدات کے باوجود کہیں زیادہ مستحکم ہے۔ سی پیک کی تعمیر میں سست روی کی ایک بڑی وجہ پاکستان کے شمال مغرب میں تشدد کے واقعات بھی ہیں۔ پاکستان میں چینی اہلکاروں کی ہلاکت اپنی تعداد کے اعتبار سے نہیں بلکہ عدم تحفظ کے باعث بے یقینی پیدا کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آئندہ برسوں میں چین پاکستان کی بجائے بھارت کے ساتھ طویل مدتی تعاون کو ترجیح دے گا۔

قومیں محض اپنی آبادی اور معاشی حجم کے بل پر عالمی نقشے پر اہمیت اختیار نہیں کرتیں۔ اس میں سفارتی مہارت، سیاسی استحکام اور عسکری طاقت جیسے عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ بھارت کے کلیدی معاشی اشاریئے بہتر ہونے کے باوجود عام آدمی کی غربت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی اس کے باوجود بھارت ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے۔ اسلئے کہ سیاسی استحکام کے باعث بھارت نے دنیا میں اپنا تاثر بہتر بنایا ہے۔ پاکستان کوئی آٹھ برس سے سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران کا شکار ہے۔ ایسے میں بیرونی سرمایہ کار پاکستانی منڈی پر بھروسہ کرنے میں دقت محسوس کرتے ہیں۔ پاکستان میں اقتدار کے متوازی مراکز سے بھی پاکستان کی عالمی توقیر کم ہوئی ہے۔ جہاں فیصلہ سازی کا طریقہ کار غیر شفاف ہو، وہاں معاشی استحکام کی ضمانت دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں ترکی، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا نے پاکستان کے مقابلے میں کہیں بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران پاکستان نے اپنے حقیقی حجم سے کہیں زیادہ اہمیت حاصل کر رکھی تھی لیکن آج بھارت جی ٹونٹی، قواڈ اور برکس کا حصہ ہے اور اسے پاکستان کی بجائے چین کے برابر اہمیت دی جا رہی ہے۔ اس بدلتی ہوئی دنیا میں متبادل توانائی، مصنوعی ذہانت اور موسمی تبدیلیوں جیسے عوامل کی موجودگی میں پاکستان کو اپنا جائز سیاسی، معاشی اور سفارتی مقام حاصل کرنے کیلئے واضح اجتماعی نصب العین مرتب کرنا ہو گا۔ یہ دو چار برس کا معاملہ نہیں۔ اس کیلئے طویل مدتی لائحہ عمل طے کرنا ہو گا جس پر اجتماعی اتفاق رائے پایا جائے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو خدا دانیال طریر کی نظم نہیں پڑھے گا۔

Check Also
Close
Back to top button