مشینیں اور جنگی جرائم

تحریر : وسعت اللہ خان  ۔۔۔۔ بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس

سولہ مارچ دو ہزار تین۔ فلسطینی مزاحمتی تحریک انتفادہ عروج  پر ہے۔ فلسطینی کاز کی ایک جوشیلی امریکی ایکٹوسٹ ریچل کوری غزہ کے شہر رفاہ میں ایک اسرائیلی فوجی بلڈوزر کے آگے کھڑی ہو جاتی ہے تاکہ ایک فلسطینی ڈاکٹر کا گھر مسمار ہونے سے بچ سکے۔بلڈوزر ریچل کو کچلتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے۔ریچل کے والدین بلڈوزر سپلائی کرنے والی امریکی کمپنی کیٹر پلر اور اسرائیلی فوج کے خلاف امریکی اور اسرائیلی عدالتوں سے رجوع کرتی ہے۔

دونوں ممالک کی عدالتیں یہ درخواست اس بنیاد  پر خارج کر دیتی ہیں کہ یہ ایک حادثہ تھا۔بلڈوزر ڈرائیور کا سامنے کا زاویہ ایسا تھا کہ وہ کوئی ’’ متحرک شے ‘‘ نہیں دیکھ سکتا تھا۔

انسانی حقوق سے متعلق اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر سے لے کے ایمنسٹی اور ہیومین رائٹس واچ اور خود اسرائیل میں متحرک انسانی حقوق کی تنظیم ’’ جیوش وائس فار پیس ‘‘ سمیت درجنوں آوازیں پچھلی تین دہائیوں سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ تمام کمپنیاں جن کے سویلین استعمال کے آلات انسانی حقوق کی پامالی میں استعمال کر رہے ہیں۔ان ریاستوں کو یہ کمپنیاں اپنی مصنوعات فراہم نہ کریں۔دو ہزار بارہ میں امریکی پریبسٹیرین چرچ نے مقبوضہ فلسطین میں بلڈوزروں کے اندھا دھند غیر قانونی استعمال کے خلاف بطور احتجاج کیٹر پلر کمپنی کے شئیرز واپس کر دیے۔

وزیراعلی پنجاب نے عید پر بہترین انتظامات پر انتظامیہ کی کارکردگی کو سراہا

کیٹر پلر بلڈوزر سمیت تعمیراتی مقاصد کے لیے اسی کے لگ بھگ آلات و مشینری بنانے والی ایک کلیدی امریکی کمپنی ہے۔گزشتہ برس اس نے اڑسٹھ ارب ڈالر کی مصنوعات فروخت کیں۔تقریباً ہر ملک میں اس کی مشینری استعمال ہوتی ہیں۔

بھارتی ریاست گجرات میں بھی کمپنی کا ایک پلانٹ ہے اور مودی حکومت نے گزشتہ برسوں میں تجاوزات کے خاتمے کے نام پر یوپی ، مدھیہ پردیش اور دیگر ریاستوں میں جو املاک بلڈوز کیں ان میں سے اکثریت کا تعلق مسلمانوں سے تھا۔شدت پسند ہندو تنظیم وی ایچ پی کے حامیوں نے پچھلے برس برطانوی شہر لیسٹر میں جو مسلم مخالف مظاہرے کیے ان میں لہرائے گئے کچھ جھنڈوں پر بھی بلڈوزر کی تصاویر تھیں۔یعنی ایک مشین کے سمبل کو سیاسی و فرقہ وارانہ مقاصد کے لیے کھلے عام استعمال کیا گیا۔ تب بھی انسانی حقوق کی تنظیموں نے مینوفیکچرنگ کمپنیوں اور سپلائرز کو کاروباری اخلاقیات کے تحت عائد ذمے داریاں یاد دلانے کی ناکام کوشش کی۔

دنیا بھر میں بلڈوزروں کا جنگ اور امن کے دوران استعمال معمول کی بات ہے۔انھیں دشوار راستے ہموار کرنے ، دشمن کی جانب سے کھڑی کی گئی رکاوٹیں دور کرنے ، بارودی سرنگیں ناکارہ بنانے اور مٹی کے بند باندھنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

مگر جب کوئی مشین کسی خاص کمیونٹی کے حقوق کچلنے کے لیے استعمال کی جائے تو خود سپلائر کمپنی یا کوئی بھی شہری اس کے استعمال پر سوالات اٹھا سکتا ہے۔خود امریکا جن ممالک کو جدید اسلحہ اور آلات فراہم کرتا ہے۔ ان پر بھی طے شدہ استعمال کی شرائط لاگو ہوتی ہیں اور مختلف امریکی حکومتوں نے کئی بار ان شرائط کی خلاف ورزی پر سوالات اٹھائے یا تادیبی کارروائی بھی کی ۔ مگر وہ جو کہتے ہیں کہ اسرائیل پر سات خون معاف ہیں۔

اسرائیلی فوج کی انجینیرنگ کور سویلین مقاصد کے لیے بنائے گئے ڈی نائن کیٹر پلر بلڈوزر نہ صرف انیس سو اسی کے عشرے سے فلسطینی گھروں اور کاروباری املاک کو منہدم کرنے کے لیے کھلم کھلا استعمال کر رہی ہے۔بلکہ ان بلڈوزروں میں ترمیم و تبدیلی کر کے انھیں ایک محفوظ قلعے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔اس کارِ خیر کو اسرائیلی ملٹری انڈسٹریز اور اسرائیلی ایرو سپیس کے ماہرین نے انجام دیا۔

ان بلڈوزروں میں استعمال ہونے والے بھاری بلیڈز کو ملٹری گریڈ کے بلیڈز سے تبدیل کیا گیا۔ڈرائیور کے کیبن اور ڈھانچے کو مسلح حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے بلٹ پروف شیشوں اور شیلڈز کا اضافی تحفظ دیا گیا۔ان بلڈوزروں پر مشین گنیں اور راکٹ لانچرز نصب کرنے کی بھی گنجائش پیدا کی گئی۔مقبوضہ علاقوں میں قائم فلسطینی کیمپوں میں ان کے ذریعے گزشتہ چار عشروں میں تیس ہزار سے زائد مکانات مسمار کیے گئے اور کئی ہزار ایکڑ زرعی زمین اور درخت اجاڑے گئے۔

غزہ میں جاری بلڈوزروں کو فصلیں کچلنے اور قبروں کو مسمار کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔انھیں کمال ادوان اسپتال کے احاطے میں موجود پناہ گزینوں کے اوپر چڑھا دیا گیا۔درجنوں زندہ لوگ کچلے گئے۔انھیں بکھری ہوئی لاشیں جمع کرنے کے لیے استعمال کیا گیا (جیسے نازی کنسنٹریشن کیمپوں میں گیس چیمبرز میں مرنے والوں کی لاشوں کے ڈھیر بنائے جاتے تھے )۔

غزہ کے برباد اسپتالوں اور پناہ گزین کیمپوں کا اسرائیلی فوج نے کئی کئی ہفتے محاصرہ کیا۔ فوجی دستوں کی واپسی کے بعد امدادی کارکنوں نے اب تک لگ بھگ چودہ اجتماعی قبریں دریافت کی ہیں۔ان میں ہر عمر کے بچوں اور خواتین کے علاوہ ایسے مریضوں کی لاشیں بھی تھیں جن کی کلائیاں بندھی ہوئی تھیں یا پھر کلائیوں میں کیتیھڈر لگے ہوئے تھے۔گویا انھیں انتہائی قریب سے گولی ماری گئی۔

قوی امکان ہے کہ ان میں سے کئی زندہ دفن کر دیے گئے۔ ظاہر ہے یہ گڑھے بلڈوزروں کے بلیڈز کے زریعے کھودے گئے۔ لاشیں ان بلیڈز میں جمع کر کے گڑھوں میں ڈالی گئیں۔ گڑھوں کو دوبارہ مٹی سے انھیں بلڈوزروں نے پاٹا اور پھر قبروں کو چھپانے کے لیے انھیں بلڈوز کر دیا گیا۔جنوبی غزہ میں نصرت پناہ گزین کیمپ میں بھی لگ بھگ دو ہفتے پہلے یہی قیامت دہرائی گئی اور چار اسرائیلی یرغمالیوں کی تلاش میں پونے تین سو فلسطینیوں کو مار کے ان کی لاشیں گلیوں میں سڑنے کے لیے چھوڑ دی گئیں۔

کیا یہ بلڈوزر جن شرائط پر جس کمپنی نے اسرائیل کو فروخت کیے ان میں وضاحت تھی کہ انھیں کن کن کاموں کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ خلاف ورزی کی صورت میں یہ کمپنی آیندہ اپنی مصنوعات اس ملک کو فروخت نہیں کرے گی ؟

کیا پچھلے چالیس برس کے دوران مقبوضہ علاقوں میں ان بلڈوزروں کے غیر معمولی منفی استعمال کی اطلاعات کی چھان بین کے لیے مینوفیکچرنگ کمپنی نے اپنے برانڈ کو بدنامی سے بچانے کے لیے اپنے تئیں کوئی تفتیش یا چھان بین کی ؟

کیا جس حکومت یا ادارے کو یہ بلڈوزر یا دیگر مشینری فروخت کی گئی انھیں باضابطہ اجازت دی گئی کہ وہ ان آلات میں اپنی مرضی سے تبدیلی و ترمیم کرنے کے لیے آزاد ہیں ؟

اگر یہ سب نہیں ہوا تو بین الاقوامی انسانی قوانین کے تحت کیا سپلائرز اور مینوفیکچررز پر بھی نسل کشی میں بلاواسطہ ساجھے داری کی فردِ جرم عائد ہو سکتی ہے ؟

یہ سوالات تب بھی اٹھے تھے جب جرمن صنعت کے کئی بڑے نام نازی کنسنٹریشن کیمپوں اور گیس چیمبرز کی تعمیر کے ٹھیکے حاصل کر رہے تھے۔جنگ کے بعد کسی ایک بھی بڑے نام کو نازیوں کی بلاواسطہ اعانت یا ساجھے داری کے جرم میں بین الاقوامی قانون کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا گیا۔ جنگ کے بعد ان کمپنیوں کے کاروبار نے دن دونی رات چوگنی ترقی کی۔

اگر اس وقت ایک بھی ایسی نظیر قائم ہو جاتی کہ بلاواسطہ طور پر جنگی جرائم کے مددگار بھی تادیب و تفتیش کے عمل سے نہیں بچ سکتے تو بین الاقوامی کاروباری اخلاقیات قدرے بہتر ہو سکتی تھیں۔مگر پھر کیپیٹل ازم اور آزاد معیشت کے نظریے کا کیا ہوتا ؟

Back to top button