تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست کھسی پن کا شکار کیوں ہو گئی؟

پاکستان کی یہ تاریخ رہی ہے کہ جب جب اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے خلاف مشترکہ احتجاج کیا ہے تب تب حکومتِ وقت کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ اس بار اگر اپوزیشن جماعتیں الگ الگ اپنے ایجنڈے کے تحت احتجاج کریں تو ہوسکتا ہے کہ حکومت کو زیادہ ٹف ٹائم نہ ملے تاہم اگر پی ٹی آئی، جے یو آئی اور جماعت اسلامی نے مل کر سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کرلیا تو حکومت کے لیے یہ ہرگز اچھی خبر نہیں ہوگی۔ ملک بھر میں ایک بار پھرپاکستان تحریک انصاف شہباز حکومت کیخلاف احتجاجی تحریک شروع کرنے کے لیے متحرک نظر آتی ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 4 ماہ گزر جانے کے باوجود پی ٹی آئی کو اس سلسلے میں اب تک کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ پاکستان تحریک انصاف نے انتخابی دھاندلی کے حوالے سے ’تحریک تحفظ آئین پاکستان‘ کے نام سے اپوزیشن جماعتوں کا گرینڈ الائنس تو ضرور تشکیل دیا ہے تاہم کوئی بھی بڑی اپوزیشن جماعت تاحال اس تحریک میں شامل نہیں ہوئی۔جے یو آئی ف اور جماعت اسلامی کی طرف سے تحریک تحفظ آئین پاکستان میں شمولیت سے معذرت کے بعد اب پی ٹی آئی کی قیادت سندھ کی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ رابطے کے لیے متحرک ہو گئی ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے اب سندھ میں اپوزیشن کے اتحاد ’گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس‘ اور دیگر قوم پرست جماعتوں کو ساتھ ملا کر احتجاج کرنے کی حکمت عملی طے کی جائے گی۔

خیال رہے کہ اس سے قبل عمران خان نے پنجاب میں پی ٹی آئی کے ورکرز کنونشن کروانے اور تحریک تحفظ آئین پاکستان کے پلیٹ فارم سے جلسے کرنے کا ٹاسک دیا تھا تاہم پنجاب میں ورکرز کی پکڑ دھکڑ اور جلسوں کی اجازت نہ ملنے کے بعد ورکرز کنوشن کے انعقاد میں بھی تیزی نہ آسکی جبکہ تحریک تحفظ آئین پاکستان کے پلیٹ فارم سے تاحال پشین اور سوات کے علاوہ کہیں بھی جلسے کا انعقاد نہ ہوسکا۔

دوسری جانب عام انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کو اب تک متعدد سیاسی جماعتوں نے تسلیم نہیں کیا، پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی)، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر جماعتوں نے شروع دن سے انتخابی نتائج کو قبول نہ کرتے ہوئے احتجاج کی کال دی تھی۔

قومی اسمبلی میں اقلیتوں سے متعلق قرارداد منظور

تحریک انصاف، جمات اسلامی،گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس یعنی جی ڈی اے، پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی، نے فروری کے عام انتخابات کے نتائج کے فوری بعد احتجاج ضرور کیا مگر اس کے بعد یہ سیاسی جماعتیں مکمل خاموش ہو گئیں۔مارچ کے بعد سے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے انتخابی نتائج کے خلاف احتجاج کافی ٹھنڈا رہا تاہم تمام اپوزیشن جماعتوں نے عید الاضحیٰ کے بعد ملکر احتجاج کی تیاری کر رکھی ہے۔ اس سلسلے میں بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی ایک بیٹھک بھی ہوچکی ہے جس میں مل کر احتجاج کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ ان سے قومی اسمبلی کی 100 سے زائد نشستیں چھینی گئی ہیں، اس لیے پی ٹی آئی کے احتجاج میں شدت بھی سب سے زیادہ نظر آئے گی۔ پی ٹی آئی نے تمام اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے، اس لیے اس احتجاج سے حکومت کو ٹف ٹائم ملنے کا امکان ہے۔ تاہم عید سے قبل مولانا کی وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ محسن نقوی کے ساتھ یکے بعد دیگرے ملاقاتوں کے بعد جے یو آئی کا شہباز حکومت کیخلاف احتجاج میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہاتھ ملانا مشکل دکھائی دیتا ہے۔تاہم جمعیت علمائے اسلام کے ایک رہنما کے مطابق مولانا فضل الرحمان کو انتخابی نتائج سے دھچکا لگا ہے اور وہ کسی صورت بھی نتائج تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ جے یو آئی رہنما کے بتایا کہ عید کے بعد سڑکوں پر احتجاج کی سیاست اپنائیں گے اور مینڈیٹ چوروں کو بے نقاب کریں گے۔

دوسری جانب جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کے مطابق ان کی جماعت انتخابات میں دھاندلی پر ببڑا احتجاج کرنے جا رہی ہے، ان کو گرینڈ الائنس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے لیکن وہ کسی الائنس کا حصہ نہیں بنیں گے کیونکہ سیاسی جماعتیں ڈیل کرلیتی ہیں، تاہم حافظ نعیم کا کہنا ہے کہ انہوں نے دیگر اپوزیشن جماعتوں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ان کے احتجاجی جلسوں یا ریلیوں میں شرکت کریں گے۔

Back to top button