جسٹس فائز عیسی کی معیاد بڑھانے کی تجویز پر اختلاف ہو گیا

سینیئر صحافی انصار عباسی نے دعوی کیا ہے کہ فوجی حلقوں کی مخالفت کے بعد وفاقی حکومت نے ججز سمیت سرکاری ملازموں کی ریٹائیرمنٹ کی عمر بڑھانے کی تجویز پر مزید پیش رفت روک دی ہے۔ یاد رہے کچھ ماہ پہلے یہ تجویز طاقتور حلقوں کی جانب سے ہی سامنے ائی تھی جس کا بنیادی مقصد چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسی کو مزید دو یا تین برس تک ان کے عہدے پر برقرار رکھنا تھا تاکہ عمرانی فتنے کا مکمل طور پر خاتمہ ہو سکے۔

لیکن اب انصار عباسی نے دعوی کیا ہے کہ فی الوقت سرکاری شعبے کے ملازموں بشمول سول، فوجی ورک فورس اور عدلیہ کے اہلکاروں کی عمر کی حد بڑھانے کی تجویز نافذ نہیں ہورہی اور یہ کہاجارہاہے کہ اس تجویز کو حتمی شکل دینے سے قبل کچھ گراؤنڈ ورک کرنا ضروری ہے۔

اعلیٰ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ریٹائرمنٹ کےلیے عمر کی حد 60 سے 62 یا 63 سال کرنے کی تجویز فی الحال تو دھندلاگئی ہےلیکن دیگر تجاویز جن میں پنشن کی اصلاحات وغیر ہ ہیں وہ ابھی بھی برقرار ہیں اور نسلوں کو پنشن دینے کی شق ختم کی جاسکتی ہے۔ یاد ریے کہ 7 مئی 2024 کو تین وفاقی وزرابشمول قانون، خزانہ اور انفارمیشن و براڈکاسٹنگ نے پنشن پیکیج کو حتمی شکل دینے کیلیے اور ساتھ ہی ساتھ فوجی، عدالتی اور سویلین سرکاری ملازموں کےلیے عمر کی مدت کو بڑھانے کا منصوبہ پیش کیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ پنشن کی اصلاحات کے نفاذ کے بعد آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان کی عمرکی حدبڑھے گی تو وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ پنشن اصلاحات سب کیلیے ہوں گی۔

انصار عباسی کے مطابق وفاقی کابینہ نے کلیدی عہدوں پر اہم تقرریوں کے لئے 65 سال کی عمر کی حد کو ختم کرنے کا اصولی فیصلہ کیا تھا جس کے بعد سے عدلیہ کے سینئر ججز بشمول چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسی کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں قیاس آرائیاں عروج پر تھیں۔ بعض لوگ اس معاملے کو چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کے تناظر میں دیکھ رہے تھے۔ ان کا موقف تھا کہ موجودہ حکومت یہ یقینی بنانا چاہتی ہے کہ سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے ہم خیال ججز کی مدت ملازمت ختم کروائی جا سکے اور انہیں اپنی باری پر چیف جسٹس کے طور پر ترقی حاصل کرنے سے روکا جا سکے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک طبقے کا اب بھی یہی خیال ہے کہ سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے ہم خیال ججوں کو مستقبل میں چیف جسٹس بننے سے روکا جائے لہازا موجودہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے قانون سازی کی جانی چاہیئے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس طرح کے اقدام سے عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو بڑھانے میں مدد ملے گی جبکہ اعلیٰ ترین ججز کو ریاست کے دیگر طاقتور اداروں کے ہاتھوں متاثر ہونے سے بچانے میں مدد ملے گی۔

یاد رہے کہ آئین کے آرٹیکل 176، 177 اور 179 جو سپریم کورٹ کی تشکیل، تقرری کے عمل اور ریٹائرمنٹ کی عمر کا تعین کرتے ہیں، ان آرٹیکلز کے مطابق اعلیٰ عدالتوں کے ججز 65 سال کی عمر تک ریٹائر ہو جائیں گے۔ آئین میں ایسی کوئی شق نہیں جو چیف جسٹس، سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے ججز کو مدت ملازمت میں توسیع کی اجازت دیتی ہو۔ لہذا نئی قانون سازی کی تجویز دی گئی تھی جسے اب فوجی حلقوں کی مخالفت کے بعد موخر کرنے کی اطلاع ارہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ چیف جسٹس فائز عیسی سے بھی نالاں ہو چکی ہے۔

تاہم وفاقی حکومت ایسی قانون سازی پر ڈٹی ہوئی ہے اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو منانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ ایسی کوئی بھی قانون سازی سپریم کورٹ کے بعض ججوں جیسے جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک کے مستقبل کا تعین کرے گی کہ آیا وہ چیف جسٹس بن سکیں گے یا اس سے پہلے ہی ریٹائر ہو جائیں گے۔

سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر کے مطابق یہ وقت کسی ایسی آئینی ترامیم کے لیے موزوں نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پارلیمنٹ مکمل طور پر عوام کی نمائندہ نہیں ہے اور تقسیم کا شکار ہے۔ ان کے مطابق پارلیمنٹ کے پاس اس وقت قانون سازی کرنے کا آئینی، جمہوری اور اخلاقی اختیار نہیں ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ‘کسی بھی مطلوبہ ترمیم کو سوشل میڈیا کی شدید جانچ پڑتال اور جوابدہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پڑھے لکھے اور باشعور شہریوں کے سامنے ایسی ترمیم کا دفاع نہیں کیا جا سکے گا’۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے بہت سارے لوگ مشتعل ہوں گے اور اس اقدام کو طاقت دکھانے کے اقدام کے طور پر دیکھیں گے۔

Back to top button