کیا شہباز شریف قیدی نمبر 804 کو NRO دلوانے میں سنجیدہ ہیں؟

سینئر صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ ابھی تک عمران خان نے تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کو حکومت سے بات چیت کی اجازت نہیں دی لیکن وزیراعظم اور اُن کے ساتھیوں کو چاہیے کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ اپنی تلخیوں کو ختم کرنے پر کام کریں اور اپوزیشن کے ساتھ ایک سیاسی رابطہ رکھیں۔ انصار عباسی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے اصل مسائل اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہیں اور اسی لحاظ سے عمران خان کی خواہش ہے کہ وہ صرف اور صرف فوجی قیادت سے بات کریں۔ لیکن فوج کی طرف سے اُن کو کوئی مثبت جواب نہیں مل رہا۔

انصار عباسی کے بقول شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کے اخلاقی جواز کو تحریک انصاف نہیں مانتی اور عمران خان سمیت دوسرے پی ٹی آئی رہنما شہباز شریف کو فارم 45 کا وزیر اعظم پکارتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اصل حکومت تو اسٹیبلشمنٹ کی ہے۔ اگر ایسا بھی ہے اور یہ بھی مان لیا جائے کہ شہباز شریف مقتدرہ کے اشاروں پر چلنے والے وزیراعظم ہیں تو پھر بھی تحریک انصاف کو وزیراعظم کی مذاکرات کی دعوت قبول کر لینی چاہئے۔

انصار عباسی کا مزید کہنا ہے کہ جب اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف اور عمران خان کیساتھ بات چیت کے لیے تیار نہیں تو پھر شہباز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ سمجھ کر مذاکرات کرنے میں تحریک انصاف کا کیا نقصان ہو سکتا ہے؟ بات چیت اور مذاکرات سے نئے رستے کھلتے ہیں۔ جو شرط عمر ایوب نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کیلئے رکھی اسی نکتے کو مذاکرات کی میز پر پہلے مطالبہ کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے اور پھر وزیراعظم اور حکومت پر چھوڑا جائے کہ کیا وہ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے عمران خان کی سزاؤں کے خاتمہ کے بعد اُن کی رہائی کو ممکن بنانے کیلئے کیا کر سکتے ہیں۔شہباز شریف حکومت کیساتھ مذاکرات کو بالواسطہ اسٹیبلشمنٹ کیساتھ مذاکرات سمجھا جا سکتا ہے جس کا تحریک انصاف کو اگر فائدہ نہ ہو تو نقصان بھی کچھ نہیں ہو گا۔

انصار عباسی کے مطابق سیاست اور سیاسی اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے کیساتھ دشمنوں جیسا سلوک کرنا اور نفرت کی سیاست کو ہوا دینے کے ماحول کو بدلنے کیلئے وزیر اعظم شہباز شریف کی اپوزیشن ڈیسکوں پر جار کر پی ٹی آئی رہنماؤں سے ملاقات اور تحریک انساف کو مذاکرات کی دعوت قابل ستائش ہے تاہم اب بات چیت یا مذاکرات ہوں گے کہ نہیں اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن قومی اسمبلی میں وزیراعظم کا اپوزیشن رہنمائوں سے ہاتھ ملانا، اُنہیں مذاکرات کی دعوت دینا اور پھر عمر ایوب کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش کا مشروط جواب دینا یہ سیاست کا وہ رخ ہے جس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے کیوں کہ ایک دوسرے سے دعا سلام کرنے، اخلاقی حدود کے اندر رہ کر اختلاف کرنے، شکوہ شکایت کرنے سے تلخ سیاسی ماحول کیساتھ ساتھ نفرت کی اُس سیاست کا خاتمہ ہو گا جس نے معاشرہ میں ایک ایسی تقسیم پیدا کر دی ہے جو نہ پاکستان کے حق میں ہے نہ عوام کے فائدے میں۔

خیال رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے 26 جون کے روز قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کو ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت دی۔ اُنہوں نے کہا کہ ملک و قوم کی خوشحالی کے لیے مل بیٹھ کر فیصلے کریں۔شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ عمران خان کو جیل میں اگر مشکلات کا سامنا ہے تو اس مسئلہ پر بھی بات چیت ہو سکتی ہے۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ قید کے دوران جو تکالیف اُن کو اور ن لیگ کے دوسرے رہنمائوں کو عمران خان حکومت کے دوران پہنچائی گئیں وہی سلوک اپوزیشن کے ساتھ روا رکھا جائے۔

قومی اسمبلی میں اپنے خطاب سے پہلےاپنی نشست سے اُٹھ کر میاں شہباز شریف اپوزیشن بنچوں کی طرف گئے وہاں مولانا فضل الرحمن سے گلے ملنے کے بعد تحریک انصاف کے رہنمائوں بشمول اپوزیشن رہنما عمر ایوب، اسد قیصر اور علی محمد خان کے پاس چل کر خود گئے اور اُن سے ایک ایک کر کے ہاتھ ملایا۔تحریک انصاف کی رہنما اور سنی اتحاد کونسل کی قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر زرتاج گل کو بھی وزیر اعظم نے سلام کیا۔

Back to top button