عمران اور امریکہ کی دوستی: بات تو سچ ہے لیکن بات ہے رسوائی کی

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ کل تک عمران خان امریکہ کو اپنی حکومت گرانے کا ذمہ دار قرار دے رہے تھے لیکن آج عمران اور امریکہ دونوں ایک ہی صفحے پر اکٹھے نظر اتے ہیں، بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔حامد میر کہتے ہیں کہ عمران خان نے امریکہ پر اپنی حکومت کیخلاف سازش کرنے کا الزام لگایا تھا لیکن اسی امریکہ کے ایوان نمائندگان نے عمران خان کے موقف کے حق میں قرارداد منظور کرلی ہے۔ 25 جون 2024ء کو امریکی ایوان نمائندگان میں ایک قرارداد میں میں مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان میں 8 فروری 2024ء کو منعقد ہونیوالے انتخابات میں مداخلت اور بے قاعدگیوں کی آزادانہ تحقیقات کرائی جائیں۔ قرارداد کے حق میں 368 اور مخالفت میں صرف سات ووٹ سامنے آئے۔

حامد میر سوال کرتے ہیں کہ کیا اس قرارداد کی منظوری پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے؟ اس قرارداد پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ وہی امریکی ایوان نمائندگان ہے جس نے حال ہی میں اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے کے حق میں ایک قرارداد منظور کی اور جب عالمی عدالت انصاف نے غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کرنے پر اسرائیلی وزیر اعظم کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے تو امریکی ایوان نمائندگان نے عالمی عدالت انصاف پر پابندی لگانے کی قرارداد منظور کرلی۔اسی امریکی ایوان نمائندگان کی طرف سے پاکستانی الیکشن کی تحقیقات کے حق میں قرارداد کی منظوری کو کسی نہ کسی سازشی مفروضے سے جوڑنا بڑا آسان ہے لیکن ان انتخابات میں بے قاعدگیوں کی تحقیقات کا مطالبہ ناصرف یورپی یونین اور برطانیہ کی طرف سے بھی آچکا ہے بلکہ پاکستانی اداروں فافین اور پلڈاٹ کے علاوہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان بھی 8 فروری کے انتخابات میں بےقاعدگیوں کی تحقیقات کا مطالبہ کر چکے ہیں۔

9 مئی سمیت دیگر واقعات پر خیبر پختونخوا حکومت کا جوڈیشل کمیشن بنانے کا فیصلہ

حامد میر کہتے ہیں کہ شہباز شریف کی حکومت نے پاکستان کو ڈیفالٹ سے تو بچا لیا لیکن 2024ء کے الیکشن بارے شکوک وشہبات نے انکی سیاسی ساکھ پر سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ اسی لئے آئی ایم ایف سمیت دیگر عالمی مالیاتی ادارے ان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔سب جانتے ہیں کہ جب مارچ 2022ء میں عمران حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو خان صاحب نے الزام لگایا کہ یہ تحریک دراصل ایک امریکی سازش ہے۔ پھر خان صاحب نے امریکہ پر سازش کا الزام واپس لے لیا کیونکہ انہیں پتہ چل گیا تھا کہ ان کے کچھ دوستوں اور حامیوں کی امریکی ایوان نمائندگان میں شناسائی کے نتیجے میں خان صاحب کی خوشبو کی طرح پذیرائی ہونیوالی ہے۔حکومت پاکستان نے اس پذیرائی کو روکنے کیلئے بہت دبائو ڈالا لیکن امریکی ایوان نمائندگان میں پاکستان کی حکومت ہار گئی اور اپوزیشن جیت گئی۔

حامد میر کے مطابق امریکی حکومت کی پالیسیوں سے آپ کتنا ہی اختلاف کریں لیکن پاکستان کے الیکشن کے بارے میں امریکی ایوان نمائندگان کی قرارداد کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔جب تک اس قرارداد کی روشنی میں 2024ء کے انتخابات میں بے قاعدگیوں کی تحقیقات نہیں ہونگی پاکستان دبائو میں رہے گا اور یہ دبائو عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعہ برقرار رکھا جائے گا۔سوال یہ ہے کہ اس دبائو سے کیسے نکلا جائے؟ الیکشن کمیشن آف پاکستان اس دبائو سے نکلنے کیلئے ریاست پاکستان کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ ریاست کی مدد صرف سپریم کورٹ آف پاکستان کرسکتی ہے ۔سپریم کورٹ میں ایسی درخواستیں دائر کی جاچکی ہیں جن میں 2024ءکے الیکشن میں ہونے والی بے قاعدگیوں اور دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔سپریم کورٹ آف پاکستان ان درخواستوں پر سماعت شروع کرے گی تو مسیحائی کے دعوے کرنے والے بہت سے ہرجائی بے نقاب ہو جائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کہے گی کہ تحقیقات کرنی ہیں تو 2018ء سے شروع کریں۔بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی پھر یہ بات بھی ہو گی کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور عمران میں اختلافات کی بنیاد کیا تھی؟باجوہ اور فیض حمید نے بھارتی حکومت کے ساتھ جو بیک ڈور چینل کھول رکھا تھا اس کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے کیا تحفظات تھے؟ کچھ عرب ممالک کے سربراہان پاکستان اور اسرائیل کی دوستی میں دلچسپی کیوں لے رہے تھے اور اس سلسلے میں جنرل باجوہ کا کیا کردار تھا ؟کیا عمران خان نے جنرل فیض حمید کےساتھ ملکر باجوہ سے جان چھڑانے کا فیصلہ کرلیا؟کیا باجوہ نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر عمران خان کے خلاف سازش کی؟کیا عمران خان نے دبائو میں آکر جنرل باجوہ کو ایک اور ایکسٹینشن کی پیشکش کر دی ؟کیا ایک اور ایکسٹینشن کی پیشکش کے بعد باجوہ نے تحریک عدم اعتماد واپس کرانے کی کوشش کی ؟عمران خان نے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کی بجائے اس وقت کے صدر عارف علوی کے ساتھ مل کر قومی اسمبلی کیوں توڑ دی ؟

حامد میر کہتے ہیں کہ اس سارے قصے میں سپریم کورٹ کا کردار بھی زیر بحث آئے گا جس نے قومی اسمبلی کو بحال کر دیا۔ جب تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے تو تحریک انصاف نے پہلے قومی اسمبلی سے استعفے دیئے اور پھر دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔آئین کے مطابق ان دو صوبوں میں تین ماہ کے اندر انتخابات ہونے تھے ۔تین ماہ میں انتخابات کیوں نہ ہوئے ؟اگست 2023ء میں قومی اسمبلی کی مدت ختم ہو گئی، انتخابات نومبر 2023ء تک ہونےتھے لیکن بروقت انتخابات کیوں نہ ہوئے ؟چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو آئین کیوں یاد نہ آیا؟ عمران خان کے ساتھ ان کا عناد سب کو معلوم تھا وہ عمران خان سے متعلقہ مقدمات کی سماعت کیوں کرتے رہے ؟

حامد میر کہتے ہیں کہ 2024ء کے انتخابات میں بے قاعدگیوں کے خلاف سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوتی ہے تو یہ سوال بھی اہم ہو گا کہ اگر فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں آتا ہے تو پھر ریاستی معاملات کیسے چلیں گے؟ یہ معاملات عمران خان چلائیں گے یا جنرل فیض حمید چلائیں گے جو آج بھی پیچھے بیٹھ کر تحریک انصاف کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کرتے ہیں ؟ نومبر 2022ء میں جنرل فیض حمید نے مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما کے ذریعہ شہباز شریف سے ملنے کی بہت کوشش کی تاکہ جنرل عاصم منیر آرمی چیف نہ بن سکیں۔یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی تو فیض صاحب تحریک انصاف کے فیصلوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے رہے ۔عمران خان اگر آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کے حامی ہیں تو انہیں جنرل فیض سے جان چھڑانا ہو گی کیونکہ فیض نے عدلیہ اور میڈیا کےساتھ وہی کیا جو آج ہو رہا ہے۔2024ء کے الیکشن کی تحقیقات ضرور ہونی چاہئیں لیکن اس کا فائدہ پاکستان میں جمہوریت اور آئین کو ہونا چاہئے کسی ایسے فرد کو نہیں جو عمران خان کو پاکستان میں صدارتی نظام نافذ کرنے کے مشورے دے رہا تھا۔

Back to top button