قدامت پسند یا اصلاح پسند، ایران کا اگلا صدر کون ہو گا؟

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی اچانک المناک رحلت کے بعد ایران میں قبل از وقت صدارتی انتخاب آج  ہورہے ہیں ، ایران کے صدارتی انتخابی عمل کے ساتھ ہی یہ بحث بھی دوبارہ سامنے آ گئی ہے کہ آیا قدامت پسند مؤقف رکھنے والا ایرانی صدر کے منصب پر برا جمان ہوگا یا اصلاح پسند صدر ایران کی انتظامی قیادت کرے گا ۔

خیال رہے کی ایران کے صدارتی انتخابات کیلئے چار خواتین سمیت 80 افراد نے اپنی رجسٹریشن کروائی تھی ۔ ان 80 میں سے 6؍ افراد کو گارڈین کونسل نے انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دی تھی جبکہ سابق صدر احمدی نژاد ، ایرانی پارلیمنٹ کے سب سے طویل عرصے تک اسپیکر کے منصب پر فائز علی لاریجانی ، صدر روحانی کے دور کے نائب صدر جہانگیری سمیت 74 افراد کو نا اہل قرار دے دیا گیا تھا ۔ ایران کے صدارتی انتخاب کیلئے 6؍ امیدواروں کی منظوری دی گئی تھی تاہم ایک روز قبل 2امیدوار انتخابات سے دستبردار ہو گئے دستبردار ہونےوالوں میں میئر تہران علی رضازکانی اور سربراہ شہدا فاؤنڈیشن امیر حسین غازی زادہ شامل ہیں۔ دونوں امیدوار مقبولیت میں کمی کی وجہ سے دستبردار ہوئے۔ تاہم اب چار امیدوارسعید جلیلی، محمد باقر قالیباف، مسعود پزیشکیان، مصطفیٰ پور محمدی مدمقابل ہیں۔

خیال رہے کہ58 سالہ سعید جلیلی ایک سخت گیر سیاست دان اور سابق سینیئر جوہری مذاکرات کار ہیں۔ انہوں نے 2013 کے ایران کے صدارتی انتخابات میں حصہ لیا، بعد میں رئیسی کی حمایت کی مگر 2021 میں اپنے طور پر انتخابات میں حصہ لیا۔سی آئی اے کے موجودہ ڈائریکٹر بل برنز، جنہوں نے ماضی میں جلیلی کے ساتھ مذاکرات کیے تھے، نے انہیں مذاکرات میں ’انتہائی غیر شفاف‘ قرار دیا ہے۔1980 کی دہائی میں ایران عراق جنگ میں وہ ایک ٹانگ کھو بیٹھے تھے، جس کے بعد انہیں ’زندہ شہید‘ کا لقب ملا۔ ان کا موقف ہے کہ ایران کو اپنے جوہری پروگرام پر مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے۔

اسی طرح الیکشن لڑنے والے ہارٹ سرجن 69 سالہ مسعود پزشکیان بھی صدر بننے کے خواہشمند سخت گیر شخصیات میں واحد اصلاح پسند امیدوار ہیں۔انہوں نے کہا ہے کہ وہ 2015 کے جوہری معاہدے کے کسی ورژن کو دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کرنے کے لیے مغرب کے ساتھ دوبارہ بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اس معاہدے کی ضرورت کو اقتصادی لحاظ سے اہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کو دنیا کے ساتھ بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔ایران کے سابق وزیر خارجہ محمد جواد ظریف، جنہوں نے نسبتاً اعتدال پسند صدر حسن روحانی کے ماتحت خدمات انجام دیں، ان کی حمایت کر رہے ہیں۔تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مسعود پزشکیان کو جیتنے کے لیے بھاری ٹرن آؤٹ کی ضرورت ہو گی ، جو ملک کی موجودہ بے حسی کو دیکھتے ہوئے ناممکن ہے۔ ان کی مہم اب تک نوجوانوں کے ووٹ، خواتین اور ایران کی نسلی اقلیتوں پر مرکوز رہی ہے۔

64 سالہ مصطفیٰ پورمحمدی واحد شیعہ عالم دین ہیں، جو انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے سخت گیر صدر محمود احمدی نژاد کے دور میں وزیر داخلہ اور بعد میں روحانی کے دور میں وزیر انصاف کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے انہیں 1990 کی دہائی میں کارکنوں اور دیگر افراد کے قتل کے ذمہ داروں میں سے ایک قرار دیا ہے۔انتخابی مہم کے دوران انہوں نے اصرار کیا ہے کہ اگلے صدر کو دنیا کے ساتھ نمٹنا ہو گا۔ وہ یوکرین کی جنگ میں ایران کی جانب سے روس کو اسلحہ فراہم کرنے کے ناقد ہیں، شہریوں کے قتل کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس وجہ سے کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ تہران کو اس کی حمایت کے لیے ماسکو سے کافی معاوضہ نہیں مل رہا۔ان کی انتخابی مہم ممکنہ طور پر علما اور روایت پسندوں کی حمایت پر منحصر ہے۔

ایرانی پارلیمنٹ کے سپیکر 62 سالہ باقر قالیباف ایرانی انتخابات میں حصہ لینے والے موجودہ حکومت میں اعلیٰ ترین عہدے دار ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ انتخابی مہم میں سب سے آگے ہیں جبکہ جلیلی دوسرے نمبر پر ہیں۔قالیباف تہران کے سابق میئر ہیں جن کے ملک کے نیم فوجی پاسداران انقلاب سے قریبی تعلقات ہیں۔ قالیباف سابق گارڈ جنرل کی حیثیت سے 1999 میں ایرانی یونیورسٹی کے طالب علموں کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن کا حصہ تھے۔ انہوں نے مبینہ طور پر براہ راست فائرنگ کا حکم بھی دیا تھا۔اس کے علاوہ انہوں نے مبینہ طور پر 2003 میں ملک کے پولیس چیف کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے طالب علموں کے خلاف براہ راست فائرنگ کا حکم دیا تھا۔قالیباف کا کہنا ہے کہ وہ ایک مضبوط مینیجر کی حیثیت سے آیت اللہ خامنہ ای کے حالیہ بیانات کی روشنی میں ایران کو بحران سے بچا سکتے ہیں۔قالیباف نے متوسط طبقے پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ غریبوں کے لیے مزید نقد رقم دینے کا وعدہ بھی کیا ہے۔

Back to top button