اپنے خلاف بات پر کچھ نہیں کرنا چاہتا، والدہ کہتی تھیں جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

سپریم کورٹ میں مصطفیٰ کمال اور فیصل واؤڈا کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ میں اپنے بارے میں کچھ نہیں کرنا چاہتا کہ بچپن میں والدہ کہتی تھیں جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ میں تو خود توہین عدالت کی کارروائی پر یقین نہیں رکھتا، ساتھی جج نے کمرہ عدالت میں بات کردی تھی جس کے بعد کارروائی شروع کرنا پڑی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بچپن میں جو باتیں گلی محلوں میں سنتے تھے اب ٹی وی چینلز پر سنتے ہیں، اس پر جسٹس عقیل نے کہا کہ ٹی وی چینلز پر ان لوگوں کو بٹھایا جاتا ہے جنہیں قانون کا کچھ علم نہیں ہوتا، تبصرے لوگ ایسے کرتے ہیں جیسے 1600 فیصلے لکھ چکے ہیں، کوئی میکنزم نہیں ہے تو بنالیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں کوئی شوق نہیں کسی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں، کیا کریں مگر معاشرہ تباہ ہورہا ہے، میڈیا کی آزادی سے متعلق ہم بہت محتاط ہیں، کورٹ رپورٹنگ کرنے والے معاشرے میں ایک کام کررہے ہیں، جا کر بتاتے ہیں یہ ہورہا ہے، اب وہ فیصلے سے پہلے تنقید شروع کردیں تو کیا کریں، کچھ ایسے ہیں جنہیں لگتا ہے انہیں جج کی کرسی پر ہونا چاہیے۔

دوران سماعت  اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ توہین آمیز نیوز کانفرنس رؤف حسن نے بھی کی ہے  اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ یہ رؤف حسن کون ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ رؤف حسن کا تعلق تحریک انصاف سے ہے اور انہوں نے چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے بارے میں ایسے توہین آمیز الفاظ کہے ہیں جو دہرانا بھی نہیں چاہتے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ اپنے بارے میں کچھ نہیں کرنا چاہتے کہ پچپن میں والدہ کہتی تھیں جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے۔

Back to top button