عمران دور میں طالبان دہشت گردوں کو پاکستان واپس کون لایا؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار وسعت اللہ خان نے کہا ہے کہ ملک میں ایک نیا فوجی آپریشن شروع کرنے کا اعلان تو کر دیا گیا ہے لیکن ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ عمران دور حکومت میں تحریک طالبان کے خطرناک ترین دہشت گردوں کو ان کے خاندانوں سمیت افغانستان سے پاکستان واپس لا کر بسانے کی واردات کس نے ڈالی تھی کیونکہ وہی دہشت گرد آج فتنہ بن کر تباہی مچا رہے ہیں۔

بی بی سی کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ امریکہ نے نائن الیون حملوں کے بعد دہشت گردی کے قلع قمع کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جینس ایجنسیوں کو ’ہوم لینڈ سکیورٹی‘ نامی سپر ادارے کی چھتری فراہم کی۔ اسی تصور کی نقل کرتے ہوئے پاکستان میں بھی 2013 کے ایکٹ کے تحت نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی یعنی نیکٹا قائم ہوئی تاکہ بروقت انٹیلی جینس شیرنگ اور مربوط رابطہ کاری کے ذریعے نیکٹا کے سائے تلے دہشت گردی سے یکساں انداز میں نمٹنے کے لیے تمقم متعلقہ اداروں کو ایک مکے کی شکل دی جا سکے۔ 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک سکول پشاور کے قتلِ عام کے بعد وزارتِ داخلہ اور نیکٹا کے تعاون سے تمام سرکردہ سیاسی جماعتوں نے دہشت گردی اور انتہاپسندی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ایک 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق کیا۔ گر گذشتہ ایک دہائی میں ہم نے اعلی فوجی و سویلین حکام پر مشتمل وفاقی و صوبائی بااختیار ایپکس کمیٹیوں، آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی اور پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کا نام تو بارہا سنا مگر نیکٹا کا نام عام پاکستانی کی یادداشت کا حصہ نہ بن سکا۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ نیکٹا آج بھی غیر فعال ہے اور پچھلے چار برس میں اس کا ایک بھی اجلاس نہیں ہو سکا۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ جنوری 2017 میں خبر آئی کہ ’گیم چینجر‘ سی پیک کے منصوبوں اور اس پر کام کرنے والے چینی کارکنوں کے تحفظ کے لیے آرمی کی نو بٹالینز اور چھ سویلین ونگز کو یکجا کر کے لگ بھگ 14 ہزار نفری پر مشتمل ایک سپیشل سکیورٹی ڈویژن تشکیل دیا گیا ہے لیکن اسکے باوجود تب سے اب تک درجنوں چینی کارکن دہشت گردوں کے حملوں میں ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں۔ پھر ستمبر 2011 میں خبر آئی کہ نیکٹا کی چھتری کو ناکافی سمجھتے ہوئے وزارتِ داخلہ میں ایک بریگیڈئیر کی سربراہی میں دوبارہ نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل زندہ کر دیا گیا جسے مشرف دور کے بعد نیکٹا میں ضم کر دیا گیا تھا۔ آئی ایس آئی، آئی بی اور ایف آئی اے پر مشتمل ایک نیشنل انٹیلی جینس کوآرڈنیشن کمیٹی الگ سے موجود ہے۔ جبکہ ایک اعلیٰ سطحی نیشنل سکیورٹی کمیٹی بھی موجود ہے مگر اس میں پولیس، آئی بی، ایف آئی اے حتیٰ کہ نیکٹا کی الگ سے نمائندگی نہیں۔مئی 2022 میں وفاقی وزیرِ اطلاعات مریم اورنگ زیب نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ نیکٹا کا پچھلے 6 برس میں کوئی اجلاس نہیں ہوا۔ حکومت اب اسے دوبارہ فعال بنانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے موثر انداز میں نمٹا جا سکے۔ پھر اطلاعات آنی شروع ہوئیں کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ’اچھے پاکستانی طالبان‘ کو ’اچھے کردار‘ کی یقین دہانی کی شرط پر آبائی علاقوں میں واپسی کی اجازت دے دی ہے۔ ان اطلاعات کے بعد وزیرستان اور سوات میں مقامی لوگوں نے بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج کیا۔ جب یہ فیصلے لیے جا رہے تھے تب لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کور کمانڈر پشاور تھے اور عمران خان وزیراعظم تھے۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ آج تک کسی جانب سے وضاحت نہیں آئی کہ یہ منصوبہ کس کے ذہن کی اختراع تھی اور کس نے اس کی منظوری دی۔ حالانکہ پشاور آرمی پبلک سکول پر حملے کے دوران بچوں اور اساتذہ کو زندہ جلا دینے کے بعد پارلیمنٹ میں ایک قرار داد منظور ہوئی تھی کہ آئندہ دہشت گردوں سے بات چیت پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر نہیں ہو گی۔ جہاں تک 10 برس پہلے 2014 میں منظور ہونے والے نیشنل ایکشن پلان کا معاملہ ہے تو اس پر پورا چھوڑ اہک چوتھائی عمل بھی نہ ہو سکا۔ حالانکہ اسے دو برس پہلے اپ ڈیٹ بھی کیا گیا۔ نیشنل ایکشن پلان کی عملی اہمیت بس اتنی ہی رہ گئی ہے جتنا کہ قائدِ اعظم کے فرمودات کا عملی احترام۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ اس پورے عرصے میں ذیادہ توجہ دہشت گردوں کو مارنے، پکڑنے یا سرحد پار دھکیلنے پر مرکوز رہی۔ خود ملک کے اندر جن لاؤڈ سپیکرز، جلسوں، لٹریچر اور تقاریر کے ذریعے انتہاپسندی کا زہر پھیلایا جا رہا ہے، اس کے ذمہ دار آج بھی اتنے ہی دلیر ہیں جتنے نیشنل ایکشن پلان سے پہلے تھے۔ نیشنل ایکشن پلان کا ایک اہم حصہ متبادل بیانیے کی تشکیل کے لیے تعلیمی نصاب سے انتہاپسندی کا زہر نکال کے امن اور بھائی چارے کی آفاقی اقدار کو بچوں کے ذہن میں بٹھانا تھا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ ان اساتذہ کی بھی چھانٹی ہو جو نصاب کو بالائے طاق رکھ کے بچوں کی رگوں میں تنگ نظری اور شدت پسندی کا زہر اتار رہے ہیں۔ یہ زہر بھرے انجیکشن بچوں کو وہ جہادی تنظیمیں لگاتی ہے جو پابندی لگائے جانے کے باوجود کھلے عام سرگرم عمل ہیں۔ جن جہادی تنظیموں کو مشرف دور سے کالعدم فہرست میں ڈالا جاتا رہا ان میں سے اکثر کئی کئی نام بدل کر آج بھی فعال ہیں۔ کچھ تو قومی و علاقائی سیاسی دھارے کا بھی حصہ ہیں۔ ان میں سے کئی تنظیمیں ’ہجوم کے ہاتھوں انصاف‘ کا کلچر بڑھانے میں سب سے آگے ہیں۔ چونکہ یہ سب تنظیمیں کسی نہ کسی کے کام کی ہیں لہذا ان کی مکمل بیخ کنی وسیع تر قومی مفاد میں شائد ہو تو ہو مگر بیخ کنی کے ذمہ داروں کے مفاد میں ہرگز نہیں۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ جن ریاستی اداروں کی طاقت کل وقتی طور پر اندرونی و بیرونی دہشت گردی اور انتہاپسندی کے تعاقب میں لگنی تھی اس میں سے آدھی طاقت اندرونِ ملک سیاسی مینیجمنٹ میں لگا دی گئی۔ آپ کو شاید یاد ہو کہ جون 2007 میں اسلام آباد میں لال مسجد سے متصل جامعہ حفصہ کے ڈنڈہ بردار بریگیڈ نے ایف ایٹ سیکٹر کے ایک مساج پارلر سے چھ خواتین سمیت نو چینی شہریوں کو اغوا کر لیا تھا اور ان کی رہائی کے لیے اس وقت کے چینی سفیر لئیو ژاؤ ہوئے کو لال مسجد کے نائب خطیب عبدالرشید غازی سے براہ راست فون پر بات کرنا پڑی۔ کیونکہ لال مسجد کی انتظامیہ کسی حکومتی عہدیدار کو خاطر میں نہیں لا رہی تھی۔ یہ پہلا موقع تھا جب پاک چین تعلقات کو نان سٹیٹ ایکٹرز نے یرغمال بنانے کی کھلم کھلا کوشش کی۔ تب سی پیک کا نام بھی کسی نے نہیں سنا تھا۔ اگرچہ اس سے پہلے لال مسجد بریگیڈ نے متعدد شہریوں اور پولیس والوں کو اغوا کیا یا مارا پیٹا۔ مگر چینی شہریوں کا اغوا وہ آخری تنکہ تھا جس کے بوجھ نے برداشت کے اونٹ کی کمر توڑ دی۔ اس واقعے کے دو ہفتے بعد لال مسجد آپریشن ہوا جس کے بعد پاکستان دہشت گردی و انتہا پسندی کی دلدل میں اور گہرا پھنس گیا۔

وسعت اللہ خان یاد دلاتے ہیں کہ اس واقعے کے 17 برس بعد پچھلے دنوں اسلام آباد میں سی پیک سے متعلق اہم جائزہ اجلاس میں شریک چینی وزیر لیو ژیان چاؤ نے سیاسی و فوجی قیادت کی موجودگی میں کھل کے کہا کہ اعتماد سونے سے زیادہ قیمتی شے ہے اور ہمارے سرمایہ کار سی پیک کے دوسرے مرحلے میں سرمایہ کاری سے یوں ہچکچا رہے ہیں کہ انھیں پاکستان میں سلامتی کے حالات اور یقین دہانیوں پر اعتبار نہیں۔ اجلاس کے بعد چینی وزیر نے آرمی چیف سے علیحدہ سے ملاقات کی۔ چینی عام طور پر کھلے عام دوستوں سے شکوہ نہیں کرتے۔ لہذا چینی وزیر کا اس طرح کھل کے سکیورٹی کے معاملات پر عدم اعتماد ظاہر کرتا ہے کہ درونِ خانہ کس سطح کی تپش محسوس ہو رہی ہو گی۔ اسی تپش سے آپریشنِ عزِم استحکام کا تصور پیدا ہوا جسکے بارے میں عام آدمی اور پارلیمنٹ تو رہے ایک طرف، خود ایسے آپریشنز کے سرجن بھی نہیں جانتے کہ اس کی شکل کیا ہو گی اور کون سا ہدف کس قدر اور کتنی مدت میں حاصل ہو گا۔ ماضی میں ایسی جتنی بھی پھرتیاں دکھائی گئیں ان کا نتیجہ تھکن کی شکل میں ہی نکلا۔ جتنے بھی آپریشن ہوئے ان کے مقاصد کے نتائج کا کوئی آڈٹ نہیں ہو سکا۔ شائد مسئلہ آپریشن سے زیادہ مریض کی ’پوسٹ آپریٹو‘ دیکھ بھال کا ہے۔

Back to top button