مریم نواز اور پیپلز پارٹی پنجاب ایک بار پھر آمنے سامنے کیوں آ گئے؟

نون لیگ اور پیپلزپارٹی ایک بار پھر آمنے سامنے آتے دکھائی دیتے ہیں۔ پنجاب میں حکمران اتحاد میں شامل پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے درمیان پاور شیئر جنگ فارمولے پر تا حال عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے۔ جس کے سبب پی پی رہنما، اسمبلی ارکان اور بالخصوص کارکنان مایوس ہیں اور پیپلز پارٹی رہنماؤں نے اپنے تحفظات پارٹی قیادت کے سامنے رکھتے ہوئے نون لیگ سے اپنا حق چھیننے کا مطالبہ کیا ہے۔

روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق ذرائع کا دعوی ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کے باوجود پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی کو تاحال ترقیاتی فنڈ نہیں ملے۔ لوکل باڈیز، ڈسٹرکٹ کمیٹیوں کی ممبر شپ کے علاوہ محکموں میں چئیر مینز اور وائس چئیز مینز کی اتھارٹی بھی نہیں مل سکی ۔ تاہم دونوں جماعتوں کے قائدین کی جانب سے کھلے عام شکووں میں سیز فائر ہو چکا ہے اور اس پر عمل بھی جاری ہے۔

عدت نکاح کیس : اپیلوں پر فیصلہ ایک ماہ میں کرنے کا فیصلہ برقرار

یادر ہے کہ مسلم لیگ ن کے ساتھ حکومتی اتحاد بناتے وقت پیلز پارٹی کے کارکنوں کو پارٹی قیادت کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ پنجاب میں شراکت اقتدار میں پیپلز پارٹی بھی حصہ دار ہوگی ۔ لیکن بعد میں نہ صرف کارکنان حکومت کا حصہ ببنے کا خواب دیکھنا چھوڑ گئے۔ بلکہ اراکین پنجاب اسمبلی بھی گلے شکوے کرتے دکھائی دیئے اور اس کا اظہار وقتا فوقتا کیا بھی جاتا رہا۔ تاہم جون کے وسط میں وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ پیپلز پارٹی کی قیادت کی ملاقات کے بعد میڈیا وار میں سیز فائر ہو گیا تھا۔ جو تاحال جاری ہے۔ البتہ پیپلز ہارٹی کی طرف سے پنجاب میں حکومتی شیئر نہ ملنے کے شکوے اب بھی جاری ہیں۔ جبکہ نون لیگ کی طرف سے اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کو سرکاری طور پر ایوان وزیر اعلیٰ ( کلب روڈ پر ) سیکرٹیریٹ بھی فراہم کیا گیا ہے۔ جہاں پی پی رہنما اور کارکنان فائلوں سمیت دکھائی دیتے ہیں۔ صوبائی انتظامیہ کے مطابق اس سیکریٹریٹ میں ایڈیشنل سیکر ٹری کے عہدے کا ایک افسر بھی تعینات کیا گیا ہے اور اس آفس کو با قاعدہ استعمال بھی کیا جارہا ہے۔ مگر پی پی رہنما نجی اور مخصوص محفلوں میں اس سیکریٹریٹ کو لا حاصل قرار دیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی ، رہنما اور کارکنان اس سیکریٹریٹ میں با قاعدہ فائلوں کے ساتھ دیکھے جاتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ شکوہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ حکومتی اتحادی جماعت کے ناطے پیپلز پارٹی کو بیٹھنے کیلئے ایک آفس اور ایک ایڈیشنل سیکر ٹری دیا گیا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جب تک ہمارے کہنے پر ہمارے ورکرز کے کام ہی نہیں ہونے تو پھر اس سرکاری آفس کا ہمیں کیا فائدہ۔ پیپلز پارٹی کے کارکن اس آفس کا وزٹ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ نون لیگی ورکرز کی طرح ان کے کام بھی ہوں ۔ جواب تک نہیں ہو رہے۔ ذرائع کے مطابق بجٹ سے پہلے پیپلز پارٹی کوصوبائی کابینہ میں شامل ہونے کیلئے ایک بار پھر کہا گیا تھا۔ لیکن پیلز پارٹی نے اپنی پالیسی کے تحت حکومت کا حصہ بننے سے صاف انکار کر دیا تھا۔

اس ضمن میں ذرائع کا کہناہے کہ پیپلز پارٹی سرکاری اداروں میں نجکاری کا عمل مکمل ہونے سے پہلے کا بینہ کا حصہ بنے سے گریزاں ہے۔ جب وزیر اعظم سے پارٹی قائدین کی ملاقات ہوئی تھی تو اس میں پاور شیئر نگ فارمولے پر عملدرآمد کا یقین دلایا گیا تھا۔ اس کے تحت پیپلز پارٹی نے پنجاب میں نون لیگ سے مختلف محکموں کے چیئر مینوں اور وائس چیئرمینوں کی اتھارٹی ، ڈسٹرکٹ لیول پر پارٹی کی فراہم کردہ لسٹ کے مطابق ڈسٹرکٹ کمیٹیوں کی ممبر شپ ممبر ز لوکل باڈی اور لا افسران لگانے میں بھی اپنا حصہ مانگا تھا۔ اس ضمن میں ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے معاملات صرف سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خاندان کی حد تک بہتر ہوئے۔ عام کارکنوں کیلئے کچھ نہیں ہوسکا۔ پیپلز پارٹی کے اراکین پنجاب اسمبلی کے مطابق پارٹی قیادت کی ملاقات کے بعد بھی پنجاب میں ہمارے معاملات پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ البتہ کلب روڈ پر واقع آفس میں معاملات میں کچھ بہتری آئی ہے۔ ترقیاتی فنڈ ز کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ چونکہ مخصوص نشستوں پر ترقیاتی فنڈ ز نہیں دیئے جار ہے تو اس حوالے سے انھیں بھی کوئی فنڈ نہیں ملے۔ کوئی بڑا کام تا حال شروع نہیں ہوا۔ معاملات مجموعی طور پر ویسے ہی چل رہے ہیں جیسے پہلے چل رہے تھے۔ اسی دوران ذرائع نے محرم الحرام کے بعد پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے شراکت اقتدار فارمولے میں کچھ پیش رفت ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔

Back to top button