پی ٹی آئی کو مخصوص سیٹیں ملنے کا امکان معدوم کیوں ہو گیا؟

سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے پاکستان تحریکِ انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے کو تین ہفتے گزر جانے کے باوجود فیصلے پر عملدرآمد تاخیر کا شکار ہے۔جہاں ایک طرف پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے عدالتی فیصلے پر نظرِثانی اپیل دائر کر رکھی ہے وہیں دوسری جانب الیکشن کمیشن نے آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے قومی اسمبلی کے 39، پنجاب اسمبلی کے 29، خیبرپختونخوا اسمبلی کے 58 اور سندھ اسمبلی کے چھ ارکان کو تحریکِ انصاف کے ارکان قرار دے کر فیصلے پر جزوی عمل درآمد تو شروع کر دیا گیا ہے۔ تاہم دیگر ارکانِ اسمبلی کو تحریکِ انصاف کا رُکن قرار دینے میں حائل قانونی رکاوٹوں پر سپریم کورٹ سے رُجوع کر لیا ہے۔

مذاکرات کی درخواست پر فوج نے عمران خان کی تسلی کیسے کروائی؟

تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد تحریکِ انصاف کو مخصوص نشستیں ملنے میں اصل رکاوٹ کیا ہے؟ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود اب بھی کچھ رکاوٹیں باقی ہیں جس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریکِ انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کو تسلیم نہ کرنا بھی شامل ہے۔ماہرین کے بقول جب تک الیکشن کمیشن تحریکِ انصاف کی حمایت سے منتخب ہونے والے تمام ارکان کو پی ٹی آئی کا رُکن قرار دینے کا نوٹی فکیشن جاری نہیں کر دیتا اس وقت تک یہ عمل مکمل نہیں ہو گا۔ تاحال الیکشن کمیشن نے 39 ارکان کو تحریکِ انصاف کا رُکن قرار دیا ہے۔ دیگر ارکان سے متعلق رہنمائی کے لیے الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے رُجوع کیا ہے۔ الیکشن کمیشن حکام کے مطابق جو آزاد ارکان تحریکِ انصاف میں شامل ہوئے ہیں ان کی لسٹ عمر ایوب نے الیکشن کمیشن کو بھیجی ہے اور اس پر چیئرمین تحریکِ انصاف بیرسٹر گوہر کے دستخط ہیں۔ لہذٰا اگر کمیشن اس لسٹ کے تحت ارکان کو تحریکِ انصاف کا رُکن قرار دے گا تو یہ انٹراپارٹی انتخابات کو تسلیم کرنے کے مترادف ہو گا۔ لہذٰا اس قانونی رکاوٹ سے متعلق سپریم کورٹ سے رُجوع کیا گیا ہے۔ آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والوں کو جب تحریکِ انصاف کا رُکن قرار دیا جائے گا تو اس کے بعد ہی اسی تناسب سے پارٹی کو مخصوص نشستیں ملیں گی۔اگر اس وقت تک جن اراکین کو پی ٹی آئی کے اراکین قرار دے دیا گیا ہے ان پر مخصوص نشستیں الاٹ ہوں گی تو پی ٹی آئی کو مجموعی طور پر 77 نشستین الاٹ نہیں ہو پائیں گی جس کے باعث ایک اور مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے ناقابلِ عمل قرار دیا تھا۔

عدالتی فیصلے پر نظرِثانی کی اپیل کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے پارلیمنٹ کے ذریعے بھی اس فیصلے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے الیکشن ایکٹ 2017 ترمیمی بل ایوان میں پیش کر دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے بلال اظہر کیانی اور زیب جعفر نے یہ بل منگل کو قومی اسمبلی میں پیش کیا۔جسے کمیٹی نے کثرت رائے سے منظور بھی کر لیا ہے۔

ترمیمی بل کے مطابق مقررہ نشان الاٹ کرنے سے اگر کسی اُمیدوار نے کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کا بیانِ حلفی ریٹرننگ افسر کے سامنے جمع نہیں کرایا تو اسے آزاد اُمیدوار ہی تصور کیا جائے گا۔سیکشن 104 میں مجوزہ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت مذکورہ بیان کردہ مدت کے اندر مخصوص نشستوں کے لیے اپنی فہرست جمع کرانے میں ناکام رہتی ہے وہ اس مرحلے کے گزر جانے کے بعد مخصوص نشستوں کے کوٹے کے لیے اہل نہیں ہو گی۔

سینئر صحافی نصرت جاوید کا کہنا ہے قومی اسمبلی میں پیش کردہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بل کے متن سے ہی لگتا ہے کہ وہ بل مخصوص نشستوں کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد روکنے یا اس میں تاخیر کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بل حکومت نے پیش نہیں کیا اس لیے بظاہر تو وہ بل حکومتی بل نہیں کہلائے گا مگر حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے بل پیش کیا ہے جس کی حکومت نے مخالفت نہیں کی۔

اس بل کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری کی صورت میں تحریکِ انصاف کو مخصوص نشستیں ملنے میں قانونی رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے اور معاملہ تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔ مگر بعض ماہرین کے مطابق اس بل کے متعلق سپریم کورٹ کوئی فیصلہ بھی کر سکتی ہے مگر اس میں بھی کچھ وقت لگے گا۔

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں سے متعلق پیش کیے گئے بل کی منظوری کے بعد سپریم کورٹ کا مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ برقرار رہے گا؟

پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ حسن رضا پاشا کے مطابق قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے بل کے اثرات یقیناً مرتب ہوں گے، یہ بل سپریم کورٹ کا امتحان ہے کہ وہاں سے اس پر کس انداز میں ردعمل دیا جاتا ہے۔ ’کیا اس فیصلے کو 63 اے کے فیصلے کے تحت دیکھا جائے گا یا پھر حال ہی میں مخصوص نشستوں کے فیصلے کے تحت دیکھا جائے گا‘۔انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ کے 63 اے سے متعلق فیصلے کو آئین میں تبدیلی قرار دیا گیا، جبکہ اس فیصلے کو بھی کسی حد تک یہی کہا جارہا ہے۔

حسن رضا پاشا نے کہاکہ سپریم کورٹ قومی اسمبلی کے بل پر اس وقت کوئی ردعمل دے گی اگر کوئی متاثرہ پارٹی اس بل کو چیلنج کرے گی اور یقیناً پی ٹی آئی کیونکہ متاثرہ پارٹی ہے اس نے سپریم کورٹ جانا ہے۔انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ کے معاملات پر سپریم کورٹ اس وقت تک دخل اندازی نہیں کرسکتی جب تک وہ بنیادی آئین کے اسٹرکچر کے خلاف نہ ہو۔ ’میں نہیں سمجھتا کہ یہ ترمیمی بل آئین کے بنیادی اسٹرکچر کے خلاف ہے‘۔

Back to top button