جسٹس منصور شاہ PTI کی امیدوں کا مرکز کیوں بن گئے ؟

تمام قسم کے منت ترلوں اور دھونس دھمکیوں کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ٹھینگا دکھائے جانے کے بعد پی ٹی آئی قیادت مایوسی کا شکار نظر آتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ سے مایوس ہونے کے بعد اب عمرانڈوز نے اپنی تمام تر امیدیں عدلیہ سے وابستہ کر لی ہیں۔ پی ٹی آئی قیادت سمجھتی ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس منصور علی شاہ کے چیف جسٹس بننے سے نہ صرف عمران خان کی رہائی کی راہ ہموار ہو گی بلکہ تحریک انصاف کیلئے اقتدار کے بند دروازے بھی کھول دئیے جائیں گے۔

حکومت نے پی ٹی آئی کا مخصوص سیٹیں لینے کا خواب کیسے چکنا چورکیا؟

دوسری جانب مبصرین کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب تحریک انصاف کو ملک کی اعلی اور ماتحت عدلیہ سے ریلیف مل رہا ہے۔ وفاق میں عددی اعتبار سے ایک مضبوط اپوزیشن اور ایک صوبے میں حکومت میں ہونے کے باوجود پارٹی عمران خان اور ان کی اہلیہ سمیت دیگر رہنماؤں کی رہائی اور انتخابات میں ملنے والے مینڈیٹ کی واپسی کے لیے ملک گیر اور فیصلہ کن تحریک چلانے سے قاصر ہے۔اس حوالے سے تحریک انصاف کے رہنماؤں کو عمرانڈوز کی جانب سے سخت تنقید اور رد عمل کا سامنا ہے۔

تحریک انصاف کی موجودہ قیادت نے عمران خان کی گرفتاری کا ایک سال مکمل ہونے پر صوابی میں جلسہ کرنے کا اعلان کیا لیکن یہ جلسہ بھی تحریک انصاف کے ان ورکرز کو مطمئن نہ کرسکا جن کا واحد مطالبہ عمران خان کی رہائی ہے۔ کسی جانب سے کوئی امید کی کرن نظر نہ آنے کی وجہ سے پارٹی کی قیادت اس جلسے میں بھی ورکرز کے سامنے کوئی فیصلہ کن لائحہ عمل نہیں دے سکی اور کارکنوں کی جانب سے تنقید کا سلسلہ نہ رُک سکا۔

ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر تحریک انصاف ملک گیر سطح پر احتجاجی تحریک شروع کرنے سے گریزاں کیوں ہے؟اس حوالے سے تجزیہ کار رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی موجودہ قیادت یہ جانتی ہے کہ جنہوں نے عمران خان کو زیرِ حراست رکھا ہوا ہے وہ کوئی بڑی تحریک چلانے نہیں دیں گے۔ ’عمران خان کی رہائی اس وقت صرف ایک صورت میں ہو سکتی ہے کہ ملک کا پورا نظام جام کر دیا جائے۔ تاہم اسٹیبلشمنٹ یہ نظام کسی صورت کسی کو بھی جام نہیں کرنے دے گی۔‘انہوں نے کہا کہ ’اس وقت اسٹیبلشمنٹ اپنی پراکسیز یعنی مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے ذریعے ملک کا نظام چلا رہی ہے۔ ایسے میں وہ کسی صورت اس نظام میں کسی دوسری جماعت کو خلل ڈالنے کی اجازت نہیں دے گی۔‘

رسول بخش رئیس کے مطابق ’تحریک انصاف اکیلی ویسے بھی اتنی بڑی تحریک نہیں چلا سکتی، فی الوقت جماعت اسلامی کا احتجاج جاری ہے اور ملک کے دیگر حصوں میں بھی احتجاج اور دھرنے ہو رہے ہیں آگے چل کر یہی مومنٹم کام آ سکتا ہے لیکن فوری طور پر تحریک انصاف بڑی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں۔‘تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ خیبر پختونخوا جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے وہاں پر جلسہ کر لینا کوئی بہت بڑی بات نہیں کیونکہ جب تک پنجاب میں تحریک شروع نہیں ہوگی اور پنجاب سے تحریک انصاف کے ورکر کو متحرک نہیں کیا جاتا اس وقت تک حکومت یا اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کی میز پر نہیں آ سکتے۔

تاہم سیاسی امور کے ماہر ماجد نظامی کے مطابق’نو مئی کے بعد پنجاب میں تحریک انصاف کی تنظیم اس قابل نہیں کہ وہ لوگوں کو باہر نکال سکے یا کوئی احتجاج شروع کر سکے۔ ان کی تنظیم اس وقت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، کچھ لوگ گرفتار ہیں اور کچھ پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ اس لیے سوشل میڈیا کے علاوہ لوگوں کو متحرک کرنا مشکل کام ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’اس وقت تحریک انصاف کوئی بھی ایسا احتجاج یا تحریک افورڈ نہیں کر سکتی جس میں کسی قسم کے تشدد کا عنصر شامل ہونے کا امکان ہو۔ انہیں نو مئی کی صورت میں پہلے بھی ایسا دھچکا پہنچ چکا ہے اس لیے وہ بہت محتاط ہیں۔ یہاں تک کہ جب عمران خان جی ایچ کیو کے باہر احتجاج کو اپنا حق سمجھتے ہیں تو تحریک انصاف کے رہنما ان کے اس بیان سے بظاہر اتفاق کرتے نظر نہیں آتے اور وہ اس کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔‘

ماجد نظامی کے مطابق تحریک انصاف موسم کی تبدیلی چاہے وہ اصلی موسم ہو یا سیاسی موسم، اس میں بہتری کا انتظار کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ وہ اعلٰی عدلیہ میں بھی تبدیلیوں کی منتظر ہے۔ ’ان کا یہ خیال ہے کہ نئے چیف جسٹس کے آنے کے بعد صورتحال میں بہتری آئے گی۔ لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب تک پنجاب میں لوگ متحرک نہیں ہوں گے اس وقت تک ملک کے دیگر حصوں میں کیا گیا احتجاج کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔‘یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کی موجودہ قیادت سیاسی طور پر اتنی مضبوط اور مقبول نہیں کہ وہ ملک کی تحریک شروع کر سکے۔

اس حوالے سے تجزیہ کار اجمل جامی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی موجودہ قیادت سیاسی لحاظ سے اتنے روابط نہیں رکھتی کہ وہ لوگوں کو متحرک کر سکے۔ شاہ محمود قریشی، پرویز الہی اور فواد چوہدری جیسے لوگ ہوتے تو صورتحال اس کے برعکس ہوتی۔انہوں نے کہا کہ ’حال ہی میں تحریک انصاف کو مختلف عدالتوں سے بڑی حد تک ریلیف ملا ہے اس لیے وہ کوئی بڑی تحریک شروع کرنے سے پہلے مزید عدالتی فیصلوں کے بھی منتظر ہیں۔‘

Back to top button