سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود فیض حمید کے خلاف انکوائری سرد خانے میں

سابق وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت میں ان کا اپوزیشن مخالف ایجنڈا لے کر چلنے والے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کیخلاف اعلیٰ سطح کی انکوائری بظاہر سرد خانے میں ڈال دی گئی ہے چونکہ اس حوالے سے کسی قسم کے کوئی نتائج ابھی تک سامنے نہیں آ پائے۔ یاد رہے کہ رواں سال اپریل میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات کی تحقیقات کیلئے ایک میجر جنرل کی سربراہی میں اعلیٰ سطحی انکوائری کا اعلان کیا گیا تھا۔ نامعلوم وجوہات کی بنا پر فوجی حکام نے جنرل (ر) فیض کیخلاف انکوائری شروع کرنے کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا تھا لیکن یہ خبر میڈیا کو لیک کر دی گئی تھی۔ تقریباً تمام معروف ٹی وی چینلز اور اخبارات نے یہ خبر نامعلوم ذرائع کے حوالے سے دی تھی۔ فوجی حکام نے سپریم کورٹ کے ایک حکم کے بعد تب تحقیقات کا حکم دیا تھا جب ایک ہائوسنگ سوسائٹی کے مالک نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور جنرل فیض پر غیر قانونی طور پر ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارنے اور قیمتی سامان چوری کرنے کا الزام لگایا تھا۔

 17 اپریل کو میڈیا کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاک فوج میں خود احتسابی کا سخت اور انتہائی شفاف نظام موجود ہے اور اسی نظام کے تحت تمام الزامات کی بڑی سنجیدگی سے تحقیقات کی جاتی ہیں اور ذمہ داروں کو سخت سزائیں بھی دی جاتی ہیں تاکہ پاک فوج کا خود احتسابی کا نظام برقرار رہے۔

عمران اور شیخ حسینہ کے بیٹے نے پاکستان کا موازنہ کس ملک سے کیا ؟

 سینیئر صحافی انصار عباسی کے مطابق 8 نومبر 2023 کو ٹاپ سٹی کے مالک نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں انہوں نے جنرل ریٹائرڈ فیض حمید پر بطور آئی ایس آئی چیف اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا تھا۔ درخواست میں الزام لگایا گیا کہ 12 مئی 2017 کو جنرل فیض حمید کے حکم پر آئی ایس آئی حکام نے سٹی آفس اور ہائوسنگ سوسائٹی کے مالک کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔ چھاپے کے دوران آئی ایس آئی اہلکاروں نے گھر سے سونا، ہیرے اور رقم سمیت قیمتی اشیا ضبط کیں جن کا اج تک پتہ نہیں چل سکا۔

 درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فیض حمید کے پٹواری بھائی سردار نجف حمید نے بھی بعد میں ہاؤزنگ سوسائٹی کے سربراہ سے رابطہ کیا اور لین دین کر کے معاملہ ختم کرنے کی آفر کی۔ درخواست میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ جنرل فیض نے بعد میں ذاتی طور پر بھی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک سے ملاقات کی حالانکہ اس کی کوئی تک نہیں بنتی تھی۔ اس ملاقات کا اصل مقصد صرف سوسائٹی کے مالک پر دباؤ پر دباؤ ڈالنا تھا، درخواست گزار کے مطابق فیض حمید نے ملاقات میں تسلیم کیا تھا کہ اس کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔ فیض نے یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ چھینا گیا قیمتی سامان واپس کر دیا جائیگا۔ تاہم 400 تولہ سونا اور نقدی سمیت کوئی بھی قیمتی چیز واپس نہیں کی گئی۔

 درخواست گزار نے یہ بھی الزام لگایا کہ آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے 4 کروڑ روپے کی نقدی چھینی۔ اد کیس میں سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ الزامات انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں، اور اگر درست ہیں، تو بلاشبہ وفاقی حکومت، مسلح افواج، آئی ایس آئی اور پاکستان رینجرز کی ساکھ کو نقصان ہوگا لہٰذا ان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔  تاہم، عدالت نے درخواست میں کیے گئے مطالبے کے تحت آئین کے آرٹیکل 184(3) کی کارروائی نہیں کی۔  درخواست میں کہا گیا تھا کہ عدالت اس آرٹیکل کے تحت اپنے اصل اختیارات کے تحت کارروائی کرے۔  سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کو شک ہے کہ وزارت دفاع اس کی شکایت پر غور نہیں کرے گی، کیونکہ جواب دہندگان مسلح افواج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے، تاہم، ایڈیشنل اٹارنی جنرل فار پاکستان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ شکایت پر مناسب غور کیا جائے گا۔

Back to top button