عمران کی بہن علیمہ خان کو شیر افضل مروت سے کیا تکلیف ہے؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار روؤف کلاسرا نے کہا ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف کی طرح عمران خان نے بھی اپنے خلاف کیسز فری میں لڑنے والے وکلا کی فوج بھرتی کر لی ہے لیکن ان میں کام کے لوگ گنے چنے ہی ہیں جن میں ایک شیر افضل مروت بھی ہے جو کچھ عرصے سے تنازعات کی زد میں ہیں۔ اب خان کی ہمشیرہ علیمہ نے بیان داغا یے کہ عمران نے جیل میں ملاقات کے دوران شیر افضل خان مروت کو گلے نہیں لگایا تھا لہازا انہیں غلط دعوے نہیں کرنے چاہییں۔ علیمہ خان نے باقی پارٹی لیڈروں کی بھی کلاس لی اور کہا کہ بچگانہ حرکتیں بند کریں اور عمران کو کسی طرح باہر نکالنے کا بندوبست کریں۔ ساتھ ہی انہوں نے شیر افضل کو بھی سنا دیا کہ لوگ اگر سڑکوں پر نکلتے ہیں تو ایسا صرف عمران کی وجہ سے ہوتا ہے۔ شاید وہ کہنا چاہ رہی تھیں کہ شیر افضل کا اتنا قد کاٹھ نہیں کہ عمران انہیں گلے لگائے یا وہ تن تنہا بڑی تعداد میں بندے باہر نکال سکیں۔

روؤف کلاسرا اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کہتے کہ اب سوال یہ ہے کہ علیمہ خان کو شیر افضل مروت جیسے عمران خان کے وفادار ساتھی سے کیا تکلیف ہے؟ انسانی مزاج ہے کہ جب وہ مشکل سے نکل جاتا ہے تو اسے وہ لوگ یاد نہیں رہتے جو مشکل میں ساتھ کھڑے تھے۔ انہیں لگتا ہے سارا وزن وہ خود اٹھا کر چلے تھے۔ جب سے آٹھ فروری کا الیکشن ہوا اور عمران کی پارٹی کو پارلیمانی سپورٹ ملی تو صاف نظر آتا ہے کہ کچھ رویے بدل گئے ہیں‘ حالانکہ پچھلے سال تک کوئی بھی بندہ باہر نکلنے کو تیار نہ تھا۔ شیر افضل مروت ہی بندوں کو باہر نکال لایا اور خوف کا بت توڑا۔ 9 مئی کے واقعات کے بعد جس طرح ریاست نے سختی کی تھی اس سے خوف کی فضا پیدا ہوگئی تھی۔ جس طرح چھاپے مارے گئے اس نے لوگوں کو ڈرا دیا تھا۔ میں خود گواہ ہوں کہ کچھ لوگوں نے اپنے قریبی عزیزوں کیلئے رعایت لینے کی کوشش کی لیکن انہیں نہ ملی۔ جس طرح پنجاب پولیس نے دہشت پھیلائی اس نے رہی سہی کسر نکال دی۔ جب پولیس گھروں میں داخل ہوتی تھی تو دہشت پھیلانے کے لیے خواتین اور مردوں کی چیخ و پکار کی وڈیوز اس خوف کو بڑھاوا دیتیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت جیل جا بیٹھی۔ کچھ انڈر گراؤنڈ ہو گئی تو بقیہ ڈر کے مارے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے۔

لیکن روؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ یہ بات ماننا پڑے گی کہ شیر افضل مروت نے پی ٹی آئی کو جوائن کیا تو اد میں جان پڑنے لگی۔ نوجوان اس کے گرد اکٹھے ہونے لگے۔ انہیں لگا کہ عمران کی عدم موجودگی میں شیر افضل ہی سسٹم کو ٹکر دے سکتا ہے۔ شیر افضل کا ٹک ٹاک پر بولا گیا ایک ڈائیلاگ اسے ہیرو بنا گیا کہ ‘پروگرام تو وڑ گیا‘۔ عمران کو بھی اس وقت کسی ایسے بندے کی ضرورت تھی جو نتائج کی پروا کیے بغیر اس کی پارٹی میں نئی جان ڈال سکے۔ اگرچہ خان کی پارٹی میں نیا خون آگیا تھا لیکن اُن میں زیادہ تر لوگ وکیل تھے‘ اعر سیاسی نہیں تھے، لیکن خان کو ان کی ضرورت تھی کیونکہ وکیلوں کے ساتھ پولیس وہ سلوک کرنے سے ڈرتی تھی جو عام ورکرز کے ساتھ کررہی تھی لہٰذا خان کو وکیلوں کی ضرورت تھی کیونکہ اس کی اپنی سیاسی پارٹی کے لوگ تو غائب تھے۔ دوسرے خان اور بشریٰ بیگم پر درجنوں مقدمات قائم ہوچکے تھے۔ اب وہ کہاں سے ان درجنوں وکیلوں کی فیسوں کا بندوبست کرتے۔یہی کام آصف زرداری اور نواز شریف بھی کر چکے تھے‘ انہوں نے بھی مفت کے وکیل رکھ لیے اور انہیں اپنے سکینڈلز اور مقدمات کے دفاع پر لگا دیا۔ بدلے میں سینیٹر بنا دیا اور کچھ بعد میں وزیر بن گئے یا اٹارنی جنرل۔ انہوں نے اپنی فیسیں وہاں سے پوری کر لیں۔

کلاسرا کے بقول عمران کو بھی بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی طرح سوٹ کرتا تھا کہ وکیلوں کی فوج بھرتی کریں جو ان کے مقدمات مفت لڑیں اور پولیس کا بھی سامنا کریں۔ ان سب کی نظریں قومی اسمبلی اور سینیٹ پر تھیں۔ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت تھی۔ خان کو قومی اسمبلی کی چند سیٹوں کے بدلے وکیل مل رہے تھے جو مقدمات مفت لڑیں گے۔ یوں ہم نے دیکھا کہ تحریک انصاف کے اصلی نسلی بندے جو مفرور تھے یا جیلوں میں تھے ان کی جگہ وکیلوں نے لے لی۔ اب اس وجہ سے ان وکیلوں میں لڑائیاں چلتی رہتی ہیں۔ ہر کوئی خود کو خان کے زیادہ قریب سمجھتا ہے اور کسی دوسرے کو برداشت نہیں کرتا۔ خان بھی سمجھدار ہے۔ ہر ایک کے غباروں میں ہوا بھرتا رہتا ہے کہ بس تم ہی اہم ہو۔وہ ان سب کی لڑائیاں انجوائے کرتا ہے کہ وہ اسے خوش کرنے کیلئے زیادہ محنت کرتے ہیں‘ بڑھ چڑھ کر مقدمے لڑتے ہیں‘ خان سے ملنے کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہیں تاکہ بتا سکیں کہ خان کے کتنے قریب ہیں اور وہ صرف ان پر ہی اعتماد کرتا ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ خان ایک سمجھدار سیاستدان کی طرح سب کو یقین دلاتا ہے کہ صرف وہی اس کا لاڈلا ہے باقی تو بس پارٹی کی مجبوری ہیں۔ یوں سب خود کو اپنی اپنی جگہ اہم سمجھ کر ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرتے اور خان کے مقدمے لڑتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اگر شیر افضل نے کہہ دیا کہ خان نے اسے گلے لگایا تو یہ بات پارٹی کے اندر باقی گروپس کو ہضم نہیں ہوئی اور علیمہ خان سے اس کی وضاحت کرائی گئی۔ لیکن شیر افضل بھی علیمہ خان کے احترام میں جواب نہیں دے سکتا‘ جیسے وہ عمر ایوب کو دیتا آیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس رویے کے نتیجے میں مشکل ترین وقت میں عمران خان کا ساتھ دینے والے زیادہ عرصہ ان کے ساتھ چل پائیں گے۔

Back to top button