سپریم کورٹ بار کے بعد PTI کے پی بار کا الیکشن بھی ہار گئی

 

 

 

خیبر پختون خواہ میں پچھلی ڈیڑھ دہائیوں سے حکومت کرنے والی تحریک انصاف کی گرتی ہوئی مقبولیت کا ایک واضح ثبوت سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے حالیہ الیکشن میں انصاف لائیرز فورم کی شکست فاش کی صورت میں سامنے آیا تھا، لیکن اب خیبر پختونخواہ بار کونسل کے الیکشن میں بھی پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ انصاف لائیرز فورم کے پینل کی عبرتناک شکست نے اس کی رہی سہی ساکھ کا جنازہ بھی نکال دیا ہے۔

 

تحریک انصاف کی مرکزی قیادت بار کونسل کے انتخابات میں پارٹی کے گڑھ یعنی خیبر پختونخواہ میں وکلا برادری میں دوسری بڑی شکست پر پریشان ہے حالانکہ تحریک انصاف کی سینٹرل لیڈرشپ معروف وکلا پر ہی مبنی ہے۔ خیبر پختون خوا میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات میں شکست کے دو ہفتوں بعد تحریک انصاف کے حمایت یافتہ وکلاء کو دوسری بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ صوبائی بار کونسلز کے الیکشن میں عوامی نیشنل پارٹی کے حمایت یافتہ ملگاری وکیلان گروپ نے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ پینل کے خلاف کامیابی حاصل کی ہے۔ گزشتہ ہفتے ہونے والے خیبر پختون خواہ بار کونسل کے انتخابی نتائج کے مطابق ملگاری وکیلان کے امیدواروں نے 28؍ میں سے 13؍ نشستیں جیت لیں، جبکہ پی ٹی آئی کے انصاف لائرز فورم کو صرف پانچ نشستوں پر ہی کامیابی ملی ہے۔ باقی نشستوں پر جے یو آئی فضل، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، نون لیگ اور آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔

 

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وکلا برادری کے الیکشنز میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کی مسلسل شکست دراصل صوبہ خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کی گرتی ہوئی مقبولیت ظاہر کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خیبر پختون خواہ کے عوام ڈیڑھ دہائی سے اس انتظار میں ہیں کہ صوبائی حکومت عوامی فلاح کے لیے کوئی قدم اٹھائے، لیکن گنڈا پور ہو یا آفریدی، انہیں صرف خان کی رہائی کی فکر ہے۔ 2024 کے انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی کے پی حکومت صرف مرکز کے ساتھ محاذ آرائی پر فوکس کر رہی ہے جبکہ عوامی فلاح کسی کی ترجیح نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خیبر پختون خواہ میں گورننس کا بحران شدید تر ہو چکا ہے۔

 

مبصرین کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے الیکشن کے بعد کے پی بار کے الیکشن میں بھی انصاف لائرز فورم کی شکست کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی پر منفی مضمرات ہوں گے، وجہ یہ ہے کہ نئے وزیر اعلیٰ نے نہ صرف سرگرمی کے ساتھ انصاف لائیرز فورم کے حق میں مہم چلائی بلکہ بار ایسوسی ایشنز کے انتخابات سے قبل ساڑھے چار کروڑ روپے کی گرانٹ کا اعلان بھی کیا تھا۔ لیکن ان کوششوں کے باوجود، پی ٹی آئی کو اپنے سیاسی گڑھ میں بدترین شکست ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے پچھلے ماہ سپریم کورٹ بار کے الیکشن میں پی ٹی آئی صوبہ بھر کے تمام پولنگ سٹیشنوں پر ہار گئی تھی۔ اُس کے مقابلے میں، پی ٹی آئی کے پینل کی قیادت سینیٹر حامد خان کر رہے تھے جنہیں ایک بھی سیٹ پر کامیابی نہیں ملی، جبکہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور سینئر وکیل احسن بھون کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے ملک بھر میں شاندار کامیابی حاصل کی۔

 

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی جانب سے اپنی جماعت کو مکمل طور پر وکلا برادی کے سپرد کر دینے کے باوجود پارٹی کے حالات پتلے ہوتے چلے جا رہے ہیں، انکا کہنا ہے کہ ایک وکیل بیرسٹر گوہر خان کو پارٹی کا چئیرمین اور دوسرے وکیل سلمان اکرم راجہ کو پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنانے کے باوجود پی ٹی آئی کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور کے پی بار ایسوسی ایشن کے الیکشنز میں شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا، عمران خان کی جماعت کو صرف قومی سطح پر ہی نہیں بلکہ خیبر پختونخوا کے تمام پولنگ سٹیشنز پر شکست ہوئی۔

 

پارٹی ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کی تیزی سے گرتی ہوئی مقبولیت کی بنیادی وجہ پارٹی کے اندر وکلا کا چھا جانا اور سیاست دانوں کا کھڈے لائن لگ جانا ہے۔ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ گروپ کو شکست دینے والے وکلا کے آزاد گروپ کی قیادت وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور سینئر وکیل احسن بھون کر رہے تھے جنکو حکومت کے نمائندے سمجھا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے حالیہ انتخابی نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ تحریک انصاف وکلا برادری میں بھی اپنی مقبولیت کھوتی چلی جا رہی ہے حالانکہ پی ٹی آئی میں سب سے زیادہ وکلا رہنما موجود ہیں۔ یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار کے مقابلے میں حکومتی حمایت یافتہ امیدوار ہارون الرشید 400 سے زائد ووٹوں کے فرق سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ حامد خان گروپ کے مقابلے میں اعظم نذیر تارڑ گروپ نے بار ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو باڈی میں بھی سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں۔ سب سے حیرت ناک بات یہ تھی کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے الیکشن میں عمران کے قریبی ترین ساتھی حامد خان ایڈووکیٹ کی زیر قیادت پی ٹی آئی کا حمایت یافتہ پینل صوبہ خیبر پختون خواہ کے کسی پولنگ سٹیشن سے کامیابی حاصل نہیں کر پایا تھا۔

خان کی چوائس اچکزئی اب تک اپوزیشن لیڈر کیوں نہیں بن پائے؟

یاد رہے عمران خان کی گرفتاری کے بعد سے پچھلے دو برس میں پی ٹی آئی کو چلانے والی وکلا قیادت اپنے بانی کو رہا کروانے میں بھی ناکامی کا شکار ہے۔ ایسے میں سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا تحریک انصاف کو سیاست دانوں سے چھین کر وکلا کے حوالے کرنا دانشمندانہ فیصلہ تھا؟ تجزیہ کاروں کے مطابق تحریک انصاف پر مشکل وقت آیا تو وکلا کی گویا لاٹری نکل آئی۔ پارٹی کے سنجیدہ لوگوں کو کھڈے لائن لگا دیا گیا اور حلقہ انتخاب اور سیاسی تجربے سے محروم وکلا راتوں رات پارٹی رہنما بن گئے۔ عمران خان کی حکمت عملی شاید یہ تھی کہ موسم ناسازگار ہے اور ڈھیروں مقدمات پارٹی کے دامن سے لپٹ چکے ہیں، ایسے میں صفِ اول میں وکیل رہنماؤں کو بٹھا دیا تو یہ قانونی معاملات سے کامیابی کے ساتھ نمٹ لیں گے اور بھاری فیسیں بھی نہیں دینا پڑیں گی۔ چنانچہ گوہر خان اور لطیف کھوسہ جیسے وکیل قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ٹکٹ لے کر پارلیمنٹیرین بن گئے جبکہ حامد خان جیسے  الیکشن ہارنے کے باوجود مرکزی عہدوں پر براجمان ہو گئے۔

 

تحریک انصاف کے دل جلوں کا کہنا ہے کہ جو لوگ زندگی میں کبھی کونسلر نہیں بن سکتے تھے، وہ پارلیمان جا پہنچے۔ وکلاء حضرات خود تو راتوں رات قومی رہنما بن گئے، لیکن عمران خان پر اڈیالہ جیل کے دروازے نہ کھل سکے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی میں نووارد ان وکیل رہنماؤں نے تحریک انصاف کو کیا دیا؟ یعنی وکلاء رہنماوں کی پی ٹی آئی میں شمولیت سے پارٹی کو فائدہ ہوا یا نقصان؟

Back to top button