فیض حمید گرفتاری کے بعد اب کس کس کو پھنسوانے والے ہیں ؟

سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور پی ٹی آئی کے چیف منصوبہ ساز جنرل فیض حمید کی گرفتاری کے بعد سیاسی حلقوں میں مختلف افواہیں زیر گردش ہیں۔کہیں سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے لپیٹ میں آنے کے دعوے کئے جا رہے ہیں تو کہیں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی گرفتاری کی خبریں سامنے آ رہی ہیں جبکہ بانی پی ٹی آئی خود ہی اپنے ملٹری ٹرائل بارے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ تاہم تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ جنرل فیض کی گرفتاری کے بعد پورے نیٹ ورک کو بے نقاب کرنے اور انجام تک پہنچانے کا فیصلہ ہو چکا ہے اس میں جو بھی زد میں آئے گا اس کو قطعا بخشا نہیں جائے گا چاہے وہ جنرل کرنل ہو، جج ہو بیوروکریٹ ہو یا صحافی۔۔۔اس نظام کا حصہ رہنے اور فیضیاب ہونے والے تمام افراد جلد یا بدیر نرغے میں ضرور آئینگے۔

جرنیلوں کےاحتساب کے بعدججزکااحتساب بھی لازمی کیوں ہوگیا؟

تاہم سینئر صحافی رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ مجھے نہیں لگتا کہ عدلیہ اپنے سابق چیف جسٹس کو بلائے گی اور انکا احتساب کرے گی کیونکہ کون سے ایسے ثبوت ہیں جن کے بنیاد پر ثاقب نثار یا کسی اور جج کے خلاف ٹرائل کیا جائے گا۔ نواز لیگ کو لگتا ہے کہ اسی ماحول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دیگر لوگوں کولپیٹ دیا جائے گا۔تاہم لگتا ہے کہ ماضی کے ججوں کے ساتھ موجودہ ججز پربھی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ جنرل فیص کی سیاہ کاریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے رؤف کلاسرا کا کہنا تھا کہ جب جنرل فیض ڈی جی آئی ایس آئی تھے ۔ عمران خان کی حکومت کیخلاف صحافیوں کے ٹوئٹس کے سکرین شارٹ آئی ایس آئی کے سیل میں بھیجے جاتے تھے۔ وہاں سے ان صحافیوں کو باقاعدہ فون کیے جاتے تھے کہ آپ نے جو ٹوئٹ کیا ہے اسے ڈیلیٹ کریں۔اگر کچھ صحافی نہیں مانتے تھے تو اسکے بعد انکے مالکان کو ٹیلی فون کیے جاتے تھے۔

دوسری جانب سینئرصحافی و تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ فیض حمید کی گرفتاری کے بعدبیورو کریسی میں بھی بہت سارے لوگ ہیں جو گرفتار ہوسکتے ہیں، ججوں اور صحافیوں کے حوالے سے بھی بہت ساری چیزیں منظر عام پر آسکتی ہیں،یہ پورا نیٹ ورک چھ سات سال سے کام کررہا تھا،یہ نیٹ ورک عمران خان، جنرل فیض اور جنرل باجوہ کا سہولت کار تھا. لگتا ہے جب پورا نیٹ ورک منظر عام پر آئے گا تو بہت سے پردہ نشین بھی بے نقاب ہونگے۔

تاہم سینئر صحافی و تجزیہ کار محمد مالک کے مطابق اپنے دور اقتدار میں عمران خان اور جنرل فیض دونوں ایک دوسرے کو استعمال کر رہے تھے۔ تاہم اب جنرل فیض کے گرفت میں آنے کے بعد عمران خان کا بچنا نا ممکن نطر آتا ہے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اعلیٰ عدالتوں میں بہت بڑ ی تبدیلی ہورہی ہے، عدلیہ اور عسکری ادارے کے درمیان تناز عہ حل نہیں ہوا،9مئی میں سخت فیصلے آ بھی جائیں تو ملزمان کو عدلیہ سے ریلیف مل سکتا ہے۔ محمد مالک نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کیخلاف حکومت کو ابھی تک اسموکنگ گن نہیں مل رہی تھی، تاہم اب فیض حمید اسموکنگ گن ثابت ہوسکتے ہیں۔

بعض دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق جنرل باجوہ اور جنرل فیض کی جوڑی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی قائم رہی. جنرل فیض کا احتساب اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک ان سے فیض یاب ہونے والوں کا بھی احتساب نہ ہو، تاہم یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کو فائدہ ہی اس تعلق کی وجہ سے ہوا، جنرل باجوہ اور جنرل فیض نہ ہوتے تو عمران خان کبھی وزارت عظمیٰ نہ دیکھتے۔ مبصرین کے مطابق عمران خا ن نے کس طرح جنرل فیض کو استعمال کیا یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔ اطلاعات ہیں کہ 9 مئی کے حوالے سے عمران خان اور فیض حمید کے کچھ لنک اسٹبلش ہوئے ہیں۔جنرل فیض اور عمران خان کی جوڑی ریٹائرمنٹ کے بعدبھی قائم رہی، اپنے اپنے مقاصد کے لئے دونوں مل کر کام کئے جارہے تھے۔ اس لئے جنرل فیض کے بعد عمران خان کا شکنجے میں آنا یقینی ہو چکا ہے۔

Back to top button