سندھ اسمبلی کی تین نسلوں کا سپیکر آغا سراج درانی

تحریر: حسن نقوی

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سندھ اسمبلی کے تین بار سپیکر آغا سراج خان درّانی ایک ایسی سیاسی میراث چھوڑ گئے جو چار دہائیوں اور تین نسلوں پر محیط ہے۔ ان کا نام اسپیکر کی کرسی کا مترادف بن گیا — وہی کرسی جو ان کے والد اور چچا بھی سنبھال چکے تھے، یوں درّانی خاندان سندھ کی واحد تین نسلی پارلیمانی روایت بن گیا۔

5 اکتوبر 1953 کو گڑھی یاسین، شکارپور میں پیدا ہونے والے آغا سراج درّانی نے ابتدائی تعلیم سینٹ پیٹرک ہائی اسکول کراچی سے حاصل کی، بعدازاں کامرس میں ڈگری اور سندھ مسلم گورنمنٹ لاء کالج سے ایل ایل بی کیا۔ سیاست میں قدم رکھنے سے قبل کچھ عرصہ امریکہ میں hard-ware کا کاروبار کیا، جس نے ان کے وژن اور طرزِ فکر کو وسعت دی۔

سیاست درّانی خاندان کی وراثت تھی۔ ان کے والد آغا صدارالدین اور چچا آغا بدرالدین دونوں سندھ اسمبلی کے اسپیکر رہ چکے تھے۔ 1985 میں عملی سیاست میں آئے اور 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی، اسی برس پہلی بار رکنِ اسمبلی منتخب ہوئے۔ وہ جلد ہی بھٹو خاندان کے قریبی اور پُراعتماد ساتھی بن گئے—ایک ایسے جیالے جو جمہوریت، وفاق اور نظریاتی استقامت کی علامت تھے۔

2013 میں پہلی بار اسپیکر منتخب ہونے کے بعد آغا سراج درّانی نے ایوان کی کارروائی نظم و ضبط اور غیر معمولی تحمل سے چلائی۔ ان کے ساتھی اراکین انہیں ’’ایوان کی توقیر کے نگہبان‘‘ کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ انہوں نے سندھ اسمبلی کے تاریخ ساز اجلاسوں کی صدارت کی اور ہمیشہ آئینی بالادستی کو مقدم رکھا۔

2017 سے 2022 کے دوران تین مرتبہ قائم مقام گورنر سندھ کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔ انہوں نے اسمبلی کے انتظامی اور آئینی ڈھانچے کو مضبوط کیا تاکہ سیاسی ہلچل کے باوجود ایوان کی خودمختاری برقرار رہے۔

ان کی سیاسی زندگی آزمائشوں سے خالی نہیں تھی۔ آمدن سے زائد اثاثوں کے مقدمات کا سامنا کیا، جنہیں انہوں نے سیاسی انتقام قرار دیا۔ لیکن ہر دباؤ کے باوجود ان کی استقامت میں کمی نہ آئی۔ قانونی اجازت ملنے پر وہ اسپیکر کے منصب پر بیٹھتے رہے اور پارٹی کے اندر مزاحمت کی علامت بن گئے۔

پیپلز پارٹی اور بھٹو نظریے کے ساتھ ان کی وابستگی آخری دم تک اٹل رہی۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے انہیں ’’برداشت اور صبر کی علامت‘‘ قرار دیا جو جمہوری اقدار کے امین تھے۔ صدر آصف علی زرداری نے کہا، ’’وہ سندھ کے ایسے فرزند تھے جنہوں نے صوبے کی خدمت عزت و ایمان داری سے کی۔‘‘ وزیر اعظم شہباز شریف نے ان کی ’’وفاق سے وابستگی اور پارلیمانی جمہوریت کیلئے خدمات‘‘ کو خراجِ تحسین پیش کیا، جبکہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے انہیں ’’مخلص، وفادار اور اصول پسند سیاست دان‘‘ کہا۔

گوگلی نیوز سے خصوصی گفتگو میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما فیصل میر نے انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سراج درّانی صرف ایک پارلیمنٹیرین نہیں تھے بلکہ وہ جمہوری قدروں سے غیر متزلزل وابستگی اور سیاسی استقامت کی علامت تھے۔ انہوں نے شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ سیاسی جدوجہد کے ہر مشکل مرحلے میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے۔ قید و بند، دباؤ اور سیاسی انتقام جھیلنے کے باوجود پارٹی نظریے سے ان کی وابستگی لمحہ بھر متزلزل نہ ہوئی۔

ان کا صدر آصف علی زرداری سے تعلق باہمی اعتماد اور سیاسی بصیرت پر مبنی تھا، جبکہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ ان کا رشتہ نظریاتی رہنمائی اور سیاسی سرپرستی کا مظہر تھا۔ فریال تالپور کے ساتھ ان کی قریبی ہم آہنگی نے پارٹی نظم، اتحاد اور تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط رکھا۔

ان کی سب سے بڑی خصوصیت عوامی اور پارٹی کارکنوں سے گہرا تعلق تھا۔ وہ ہر جیالے کو ساتھی سمجھتے، ان کیلئے ہمیشہ دسترس میں رہتے، ان کے دکھ سکھ بانٹتے اور کارکنوں کا دل جیت لیتے تھے۔

سپیکر کے طور پر انہوں نے ایوان کو عزت، انصاف اور تحمل سے چلایا، اور یہ ثابت کیا کہ بہترین سیاست کردار اور مزاحمت کا دوسرا نام ہے۔

ان کی جمہوریت، آئینی تسلسل، صوبائی خودمختاری اور سیاسی ہم آہنگی کیلئے خدمات ہمیشہ احترام کے ساتھ یاد رکھی جائیں گی۔ آج ہم صرف ایک سیاست دان کا نہیں بلکہ ایک سچے جمہوریت پسند، ادارہ ساز شخصیت اور شہید بھٹو کے نظریے کے وفادار جیالے کا سوگ منا رہے ہیں۔‘‘

ایوان سے باہر بھی وہ عوام کے دلوں میں مقبول رہے۔ شکارپور میں انہیں ایک شفیق اور ہم درد نمائندے کے طور پر جانا جاتا تھا، جو مسائل حل کرتے، ترقیاتی منصوبے آگے بڑھاتے اور عوام کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے۔

آغا سراج درّانی کی زندگی سندھ کی سیاسی تاریخ کا عکس تھی—مارشل لا کے اندھیروں سے جمہوری استحکام تک۔ وہ اس نسل کی علامت تھے جس نے ظلم اور قید و بند کے باوجود جمہوریت پر ایمان قائم رکھا۔

وہ ایک ایسی سیاسی روایت چھوڑ گئے جس میں خدمت، عزم، اور دیانتداری شامل ہے۔ دوست اور مخالف سب اس بات پر متفق ہیں کہ آغا سراج درّانی محض ایک سیاست دان نہیں تھے بلکہ پارلیمانی وقار کے امین اور جمہوری تسلسل کے سچے علمبردار تھے۔

ان کا نام ہمیشہ سندھ کی سیاسی تاریخ میں زندہ رہے گا — ایک ایسے شخص کے طور پر جو سب سے طویل عرصے تک سپیکر رہے، جن کی متانت، بردباری اور جمہوری اصولوں سے وفاداری نے صوبائی سیاست کے ایک دور کو متعین کیا۔

Back to top button