مریم حکومت بالاخر میڈیا مخالف قانون لانے میں کامیاب ہو گئی
نون لیگ کی حکومت نے ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے سوشل میڈیا اور میں سپریم میڈیا پر تنقیدی آوازوں کو بند کرنے کیلئے ہتک عزت کا نیا قانون منظور کروا لیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے گورنر سردار سلیم حیدر کی عدم موجودگی میں قائمقام گورنر پنجاب ملک احمد خان نے بل پر دستخط کر دیئے ہیں جس کے بعد پنجاب اسمبلی سے منظور ہتک عزت بل باقاعدہ قانون بن گیا ہے۔جس کے بعد ملک بھر میں صحافیوں نے احتجاج تحریک چلانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ صطافتی تنظیموں نے بل کی منظوری پر تمام حلومتی سیاسی جماعتوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے جلد ایکشن کمیٹی کا اجلاس بلاکر اگلے لائحہ عمل کا اعلان کرنے کافیصلہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں صحافتی تنظیموں کے تحفظات اور اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود پنجاب اسمبلی میں ہتک عزت بل 2024 منظور کرلیا گیا تھا۔بل صوبائی وزیر مجتبیٰ شجاع الرحمان نے پیش کیا تھا، اپوزیشن کی تمام ترامیم مسترد کردی گئیں تھیں، اپوزیشن نے بل کو کالا قانون قرار دے کر بل کے خلاف احتجاج کیا اور بل کی کاپیاں پھاڑ دیں تھیںں جبکہ حکومت نے صحافتی تنظیموں کی بل مؤخر کرنےکی تجویز مسترد کر دی تھی۔ تاہم گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے صحافیوں کو بل کی متنازع شقوں پر نظر ثانی کے علاوہ تمام سٹیک ہولڈرز کے تحفظات کے ازالے کی یقین دہانی کروائی تھی۔ اور واضح کیا تھا کہ پیپلز پارٹی پنجاب حکومت کے موجودہ بل کو سپورٹ نہیں کرتی، پیپلز پارٹی میڈیا کے ساتھ کھڑی ہے۔ تاہم اب ان کی عدم موجودگی میں قائم مقام گورنر ملک احمد خان نے بل کی منظوری دے دی ہے جس کے بعد ہتک عزت بل باقاعدہ قانون بنا گیا ہے۔
صحافی عمران ریاض کو حج پر جاتے ہوئے گرفتار کرلیا گیا
یاد رہے کہ وزیراعلی مریم نواز کی آشیر باد سے منظورکردہ نئے ہتک عزت قانون کے تحت حکومت ایسے خصوصی ٹریبیونل بنا سکے گی جو چھ ماہ کے اندر اندر ایسے افراد کو سزا دیں گے جو ’فیک نیوز بنانے اور پھیلانے میں ملوث ہوں گے۔‘ یہ سزا 30 لاکھ روپے تک ہرجانے کی ہے۔ عجیب بات یہ یے کہ ٹربیونل یہ سزا ٹرائل شروع ہونے سے قبل ہی ہتک عزت کی درخواست موصول ہونے پر عبوری حکم نامے میں سنا سکتا ہے۔ ٹرائل کے بعد جرم ثابت ہونے کی صورت میں عبوری طور پر لی گئی ہرجانے کی رقم ہرجانے کی حتمی رقم میں شامل کر لی جائے گی۔
نئے قانون کے مطابق ہرجانے اور قانونی کارروائی کے علاوہ یہ ٹریبیونل ایسے شخص کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ یا ایسا کوئی بھی پلیٹ فارم جس کو استعمال کرتے ہوئے مبینہ ہتکِ عزت کی گئی ہو، اس کو بند کرنے کا حکم بھی دے سکتا ہے۔ ہتکِ عزت یا ڈیفیمیشن ایکٹ 2024 کے تحت ان ہتک عزت ٹریبیونلز کو انتہائی بااختیار بنایا گیا ہے جن کی کارروائی کو روکنے کے لیے کوئی عدالت حکمِ امتناع جاری نہیں کر پائے گی۔
پنجاب اسمبلی کی ویب سائٹ پر موجود ہتکِ عزت قانون 2024 کے مسودے کے مطابق کوئی بھی ایسا شخص جس کو لگے کہ اس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا ہے وہ سول قوانین کے تحت مبینہ ہتک عزت کرنے والے کے خلاف کارروائی کا آغاز کر سکتا ہے۔ اس سے پہلے اسے یہ ثابت کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہو گی کہ اس کی ساکھ کو حقیقی طور پر کتنا نقصان ہوا ہے۔
مسودے کے مطابق اس قانون کے دائرہ اختیار میں ہر وہ شخص آئے گا ’جو سوشل میڈیا کی ویب سائٹس کے ذریعے عوام تک پہنچانے کے مقصد سے تصاویر، آوازیں، اشارے، علامات یا تحریریں نشر کرے گا۔‘ ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور ایپلیکیشنز میں فیس بک، ایکس یا ٹویٹر، انسٹاگرام، واٹس ایپ اور ٹک ٹاک وغیرہ شامل ہیں۔پنجاب میں منظور کیے جانے والے نئے قانون کے مطابق ہتک عزت سے مراد ’غلط یا جھوٹ پر مبنی بیان کی اشاعت، نشریات اور پھیلاؤ ہے جس سے کسی شخص کو لگے کہ اس کی ساکھ مجروح ہوئی ہے یا اسے دوسروں کی نظروں میں گرایا گیا ہے یا اسے غیر منصفانہ تنقید اور نفرت کا نشانہ بننا پڑا ہے۔‘ قانون کے مطابق ’ہر ایسا بیان ہتکِ عزت کے زمرے میں آتا ہے چاہے اس کا اظہار زبانی کلامی کیا گیا ہو یا پھر تحریری اور تصویری شکل میں کیا گیا ہو۔‘ ’چاہے اس کے لیے عمومی ذرائع استعمال کیے گئے ہوں یا پھر اس کے اظہار کے لیے الیکٹرانک اور دیگر جدید میڈیم، ذرائع یا آلات یا پھر سوشل میڈیا، کوئی آن لائن یا سوشل میڈیا ویب سائٹ، ایپلیکیشن یا پلیٹ فارم استعمال کے گئے ہوں۔‘
ہتک عزت قانون کے مطابق حکومت اس قانون پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے جتنے ٹریبیونل ضروری سمجھے قائم کر سکتی ہے اور اس کے ممبران مقرر کر سکتی ہے۔ حکومت ٹریبیونل کے دائرہ کار کا تعین کرے گی۔ ہتک عزت ٹریبیونل چھ ماہ کے اندر شکایت پر فیصلہ دینے کا پابند ہو گا۔ کوئی بھی شخص مبینہ ہتک عزت کے واقعے کے 60 دن کے اندر ٹریبیونل میں شکایت جمع کروا سکتا ہے۔درخواست گزار کو ہتکِ عزت کے دعوے کو حقائق کے ساتھ بیان کرنا ہو گا اور ساتھ ہی دو گواہان کا بیانِ حلفی بھی جمع کروانا ہو گا۔ درخواست میں اس بیان کو واضح طور پر بتانا ہو گا جس کی وجہ سے اس کو لگتا ہے کہ اس کی ساکھ مجروح ہوئی اور وہ کتنا ہرجانہ لینا چاہتا ہے۔ ٹریبیونل سمن کے ذریعے اس شخص کو طلب کرے گا جس کے خلاف الزام عائد کیا گیا ہے۔ اپنا دفاع کرنے کے لیے وہ شخص پہلی پیشی کے 30 دن کے اندر ٹریبیونل سے اپنے خلاف الزامات کا دفاع کرنے کی اجازت لے گا۔ ٹریبیونل 60 دن کے اندر اندر درخواست پر فیصہ کرنے کا پابند ہو گا۔ہتک عزت بل کے تحت 30 لاکھ روپے کا ہرجانہ ہوگا، آئینی عہدوں پر موجود شخصیات کے خلاف الزام پر ہائی کورٹ بینچ کیس سن سکیں گے۔